بنی ہے مرکز چشم زمانہ بے خودی اپنی
بنی ہے مرکز چشم زمانہ بے خودی اپنی
بڑھادی ہے کسی کی دلکشی نے دلکشی اپنی
ہمیں کافی ہے بس فکر و نظر کی روشنی اپنی
نہ دے اے چاند ہم کو چار دن کی چاندنی اپنی
میرا گھر پھوکنے والے بڑا ممنون ہوں تیرا
چمن کی تیرگی کو چاہئے تھی روشنی اپنی
فراق یار ! ان آنکھوں کا پتھرانا بھی کیا شئے ہے
نہ شب کی تیرگی اپنی نہ دن کہ روشنی اپنی
سرمژگاں پہ کچھ سیال موتی جگمگاتے ہیں
اسے میں روشنی ان کی کہوں یا روشنی اپنی
میرے اعمال کس لائق ہیں بس اک آسرا یہ ہے
بڑے ہی بخشنے والے سے ہے وابستگی اپنی
کسی دستِ کرم کا ایک جرعہ ہم کو کافی ہے
مٹے گی جام و ساغر سے کہیں تشنہ لبی اپنی
زمانہ لاکھ چاہے ہم کبھی مرجھا نہیں سکتے
خدا کے فضل سے باقی رہے گی تازگی اپنی
پرِ پرواز اس کے ہم نے خود ہی کاٹ ڈالے ہیں
فلک کو بھی نہیں خاطر میں لاتی تھی خودی اپنی
خود اپنے ضعفِ ایمان و عمل نے کردیا پیچھے
زمانہ کی قیادت کر رہی تھی آگہی اپنی
میرے اشعار کو میزان فن پر تولنے والو
فقط دل کی تسلی کے لئے ہے شاعری اپنی
پتہ دیتی ہے اس خورشید کا میری درخشانی
میں اخؔتر ہوں نہیں یہ روشنی ہے روشنی اپنی