فاران  

میرے آقا نے جو طیبہ میں بلایا ہوتا

میرے آقا نے جو طیبہ میں بلایا ہوتا
خاک کو دوشِ ثُریّا پہ بٹھایا ہوتا

صحبتِ خاکِ قدم ملتی جو پل بھر کے لئے
چاند و سورج کو بھی عش عش پہ اُبھارا ہوتا

اُحد کیا کون و مکاں شکل میں ہوتے زر کی
وجہِ تخلیقِ خدا کا جو اشارہ ہوتا

غار میں پیارے نبی ، یارِ نبی کو دیکھا
اس کبوتر کی ہی آنکھوں کا میں دیدہ ہوتا

میرے اعمال تو لے جاتے جہنم میں اگر
شافعِ روزِ جزا نے نہ بچایا ہوتا

ماہپاروں نے لیا حشر میں نورِ بخشش
شمسِ طیبہ مجھے کرنوں میں سمایا ہوتا

اے رضا والوں رضا کار ہو تم کوثر پر
ہم رضا والوں کو محشر میں یہ مژدہ ہوتا

ترک رکھتے جو تعلق بھی یزیدوں سے اگر
یاں  بھی حسنین کے بابا کا سہارا ہوتا

غور کر نعت ہر ایک نعت ہے حمدِ رب بھی
حق ہے محبوب و مُحب میں نہیں میرا ہوتا

شاعری اہل ہنر جانیں ، تمنّا یہ ہے
مدحتِ مالکِ کُل میرا وظیفہ ہوتا

کاش رکھ دیتے قدم قلب پہ وہ اے فاراں
کوہِ فاراں کی طرح تیرا نسیبا ہوتا

...

عزیزوں یہ وصیت ہے یہی پیغام لکھ دینا

عزیزوں یہ وصیت ہے یہی پیغام لکھ دینا
کفن پر تم میرے مرشد مشاہد نام لکھ دینا

پلا کر ہی ہزاروں کو صراطِ حق چلا ڈالا
ہمارے واسطے بھی ساقیا وہ جام لکھ دینا

جو فہرست ہو مرتب مشربِ شاہِ مشاہد کی
نِکمّا ہی سہی لیکن ہمارا نام لکھ دینا

پرندوں کی حفاظت میکدے کی شاخ پر ہی ہے
زمینوں کی کشش پر تم شکاری دام لکھ دینا

صلح کُل کے قفس گر پھنسیں یہ بلبلیں ساری
ہزاروں چہچہاہٹ میں سُکُوتِ شام لکھ دینا

تمہیں مُرشد ہو شاہد ہو مشاہِد ہو مشاہَد ہو
سرِ محشر گواہی تم سرِ انجام لکھ دینا

تصلب جانِ بلبل تو صلح کل موتِ بلبل ہے
نمائش کے تصلب پر فریبی دام لکھ دینا

اگر فاراں طلب ہو کچھ نگاہِ مرشدی ڈھونڈو
بغیر اس واسطے کے تم خیالِ خام لکھ دینا

...

تمہارے اعمال نے تمہیں ہی بہت ستایا تو کیا کروگے

تمہارے اعمال نے تمہیں ہی بہت ستایا تو کیا کروگے
دلی تصلب تمہیں ابھی بھی نہ ہاتھ آیا تو کیا کروگے

ابھی تو زندگی ہے جی لو ، شرابِ نفرت کو خوب پی لو
جو موت نے آکے پچھلے گھر کا حساب مانگا تو کیا کروگے

نبی کا رب سے کِیَا تقابُل ، پھنسا یوں شرکِ جلی میں جاہل
حمایت اسکی کرِی ہے تم نے، لحد میں پوچھا تو کیا کروگے

میری کُتُب میں تو سب تھا ظاہر، ہٹا کیوں اس سے بتا تو زاجر
رضا نے بھی حشر میں جھڑک کر ، اسی کو پوچھا تو کیا کروگے

صحابہ کو کہہ رہا ہے خاطی، پھر اُس کو تم نے پناہ کیوں دی
نبی کے اصحاب و آل نے بھی ، جو ساتھ چھوڑا تو کیا کروگے

قبولِ حق میں انا گر آئے ، لو ہم ہی ہارے تمہی تو جیتے
خدا نہ کردہ حسد کے اندر ، یہ دین کھویا تو کیا کروگے

تم اپنی منزل کی راہ لے لو ، نہ اتنا ڈھونڈو کہ خود ہی بہکو
صبح کا بھولا وہ شام کو بھی اگر نہ لوٹا تو کیا کروگے
-------------------------------

 

ہماری غربت پہ کیوں ہو ہنستے ، یہ فِقرے تم جو ہو خوب کستے
تمہارے فقروں نے طوق بن کر تمہیں پھنسایا تو کیا کروگے

ہے علم و شہرت کا تم کو دعوہ ، اُسی پہ بٹّا لگےتو شکوہ؟
حسابِ عشق عاشقوں نے تمہی کو سونپا تو کیا کروگے

پتا ہے مجھ کو سکونِ ساحل ، مگر ہوں پھر بھی بھنور میں حائل
میں ڈوبتا ہوں تو ہنس رہے ہو ، میں تَیر آیا تو کیا کروگے

ابھی تو ڈرتے ہو کشتیوں سے ، ہو خوب مانوس ساحلوں سے
او خوفِ غرق رکھنے والوں جو ایلا آیا تو کیا کروگے

نہیں ہے پچھم سے شمس نکلا ، بتا دو فاراں ہے وقتِ توبہ
نعوذ باللہ حجاب اُٹھتے خیال آیا تو کیا کروگے

...

دیارِ ہند میں اپنا رہا ہے کارواں برسوں

دیارِ ہند میں اپنا رہا ہے کارواں برسوں
کیا ہے اولیاء نے یہ اُجاگر باغباں برسوں

کبھی یاں آئے تھے غازی مٹانے کفر کی ظلمت
کٹے ہیں راہِ حق میں بھی یہاں پر نوجواں برسوں

شمال و مشرق و مغرب جنوبِ ہند سے لیکر
رہے ہیں اے مسلمانوں ہمارے حکمراں برسوں

وہ سنجر سے چلا تھا باغِ حق کی آبیاری کو
معینِ دین و ملت سے رہے گا شادماں برسوں

امام احمد رضا وہ آفتابِ عشق و اُلفت ہے
عداوت جل گئی ، ہوگی محبت ضوفشاں برسوں

وہ بیشِ سُنّیت کا شیرِ دل شیر ببر ہی تھا
وہابیت رہے گی نام ہی سے حرزجاں برسوں

ارے فاراں مُشاہد سا محافظ اب کہاں پاؤ
چلو پائیں وہاں چل کر فیوض آستاں برسوں

...

اُن کےدرکے سگ سے نسبت ہو گئی حاصل مجھے

اُن کےدرکے سگ سے نسبت ہو گئی حاصل مجھے
کیا دبا پائے بھلا پھر قوّتِ باطل مجھے

یہ تمنا ہے کہ کہہ دیں آپ عاشق ہے میرا
غرض کیا دنیا کہے کہتی رہے جاہل مجھے

میرے آقا نے پتا خود ہی بتایا حشر کا
پیاس کی شدت میں ملنا جانبِ ساحل مجھے

دشمنِ احمد پہ شدت کے فوائد کیا کہوں
رحمتِ عالم کی رحمت ہو گئی شامل مجھے

بے بس ان کو کہہ دیا اصحاب کو خاطی لکھا
کیا نہیں تھا رد ضروری یہ بتا غافل مجھے

حیف صد افسوس اس مسئلہ کو ذاتی کہہ دیا
فرضِ اُمت کیا یہی تھا؟ ہاں بتا اے دل مجھے

حفظِ ناموسِ رسالت کا جو مسئلہ ہو کہیں
اے خدا کر دے کرم سے ہر جگہ حائل مجھے

اپنے نانا حضرت طیب کے تیور میں کہو
اے جنونِ عشق لے چل اور اک منزل مجھے

پھر تو فاراں ہے شفاعت کے لئے کافی یہی
حُبٌّ لِلہ بُغْضٌ لِلہ پر رَکِھے عامل مجھے

...

تیری اوقات ہی کیا ہے کرے جو بات رفعت کی

تیری اوقات ہی کیا ہے کرے جو بات رفعت کی
سنی ہے میں نے قرآں سے حکایت ان کی مدحت کی

ابھی جی بھر کے دیکھا ہی کہاں  دیوارِ روضہ کو
صدائے جاں بلب کس نے سنائی پھر سے رحلت کی

امن کی جستجو تھی تو حرم کو چھوڑ کیوں آئے
شکایت کیا کریں خود سے خریدارِ  ہلاکت کی

بگڑتے گرتے پڑتے دل میں وہ جوشِ بلا دیکھا
ذرا سی چار باتیں کیا سنائیں ہم نے الفت کی

میرے ذوقِ جنوں پر ہنسنے والو کیا خبر تم کو
کہ مٹنے سے سیکھائی ہے رضانے بات شہرت کی

چلے تحت الثریٰ آؤ ترفُّع کے طلبگارو !
یہ سعدی نے گلستاں میں نکالی راہ رفعت کی

الٰہی صدقۂ موسیٰ وہ سامانِ نظر دینا
ملائک بات چھیڑیں جب عدالت میں زیارت کی

نہیں کچھ شور و غوغہ اور لٹانا جاں صحابہ کا
کہ پروانوں نے سیکھی ہے یہاں سے شان حکمت کی

مدد کی بھیک مانگے پھر رہے ہیں وہ بھی محشر میں
کہ جن کو استعانت پر عداوت تھی قیامت کی

یہ بھولا صبح کا بھٹکا مگر نہ شام کو لوٹا
وگرنہ دیکھتا یہ بھی کہیں تاویل رحمت کی

ذرا ایمان تو پرکھو ،  ذرا اعمال تو دیکھو
بڑے آئے شکایت کرنے والے اپنی قسمت کی

یہ چاہت ہے تری فاراں سبھوں میں انقلاب آئے
چراغوں سے سحر ہوتی نہیں ہے ایسی ظلمت کی

...