غزل  

بدلی رخ ہوا وہ نظارے بدل گئے

بدلی رخ ہوا وہ نظارے بدل گئے
احباب کی نظر کے شرارے بدل گئے

کہتے تھے ہر قدم پہ پکارو ملینگے ہم
دردالم کے اب تو سہارے بدل گئے

رہبر ہی اپنا رہزنِ دینِ نبی ہوا
کتنے بڑے بڑے تھے منارے بدل گئے

علمائے حق ہی ہوتے ہیں مطعون ہرجگہ
تحریکِ سنیت کے شمارے بدل گئے

جنگل ہے سون سان بیابان دل بھی ہے
بازو و دست اب تو ہمارے بدل گئے

جو حاشیۂ ذہن پہ آہی نہیں سکا
لعل و گُھر صدف وہی ہیرے بدل گئے

حزن و ملال عالمِ حسرت و یاس میں
اعداء سے کیا گلا کہ ہمارے بدل گئے

جن پر پہونچ کر دھوتے تھے داغِ غم و الم
بحرِ کرم کے اب وہ کنارے بدل گئے

دوشِ اُفق پہ آہ کو رکھتے ہو تم فراں
نازو نگاہ و طرز کہ سارے بدل گئے

...

شاہ کون و مکاں مرتے دم آپ ہاں مجھ کو کلمہ پڑھائیں ، دعا کیجئے

شاہ کون و مکاں مرتے دم آپ ہاں مجھ کو کلمہ پڑھائیں ، دعا کیجئے
لے کے آغوش میں روح کو پھر ملک نظمِ بخشش سنائیں ، دعا کیجئے

آل و اصحاب سے بھی محبت کریں ،شمعِ عشقِ نبی میں یہ روغن بھریں ،
روح ِایمان کو اور روشن کریں ، قبر میں جگمگائیں دعا کیجئے

ایک کثرت ہے ہم پر بھروسہ کئے راہ میں خار ہیں اور پتھر پڑے
یا نبی آپ کا آسرا چاہئے  اب نہ ہم لڑکھڑائیں دعا کیجئے

جلنے والے جلیں مرنے والے مٹیں جشنِ میلاد کی خوب دھومیں مچیں
آگئے آگئے مصطفے آگئے اپنا تن دھن لُٹائیں دعا کیجئے

نعت انکی کہوں کیسے میں یا خدا، تیرا قرآن ہے ان کا مدح سرا
ابن ثابت ہیں جامی ، رضا غوطہ زن ، ہم بھی کچھ چھینٹ پائیں دعا کیجئے

مشغلہ نعت گوئی عطا کیجئے یا نبی اپنا عاشق بنا لیجئے
فکر دنیا سے آزاد ہوں ذہن و دل گیت مدحت کے گائیں دعا کیجئے

نعت انکی لکھوں جب بھی میں یا خدا میری تصحیح کریں حضرتِ شاہ رضا
پھر یہ فرمائیں عشّاق میں جا پڑھو اُن سے ہم داد پائیں دعا کیجئے

گرد قلب و جگر سے ہٹا لیجئے پھر تمنائے دل اس طرح کیجئے
خاک طیبہ کو چہرے پہ مل لوں ذرا حسن والے لجائیں دعا کیجئے

کس پہ تنبیہ کریں فتنیں ہیں برملا کس کا ہم رد کریں گمرہی جابجا
گوشِ تنہائی میں اب ہے یہ التجا حضرت مہدی آئیں دعا کیجئے

دامنِ مصطفے اور پھر کم کذا کیا ہیں قیدیں یہ سب او جی چھوڑو ذرا
بے حساب ان کی رحمت ہے ہم پر سُنو بے تُلے بخش جائیں دعا کیجئے

یہ دعا کیجئے عاشقانِ نبی ہوں مدد کے لئے ہر قدم ہر گھڑی
ڈوبتوں کو سہارا ملے گا کہاں دست رحمت بڑھائیں دعا کیجئے

شدتِ پیاس میں جب نظر پڑگئی ، فکرِ کوثر گئی ٹک ٹکی بن گئی
مُسکرا کر وہ فاران پاس آئیں پھر ورقِ بخشش تھمائیں دعا کیجئے

...

محض رخصت کونہ دیکھو عزیمت خوب کرنے دو

محض رخصت کونہ دیکھو عزیمت خوب کرنے دو
سنو اب روح کو بھی تم ریاضت خوب کرنے دو

یہ لمحے زندگی کے اب تمہارے واسطے ہی ہیں
متاعِ زندگی سے اب تجارت خوب کرنے دو

انہیں کے واسطے ہی ہم بنے اور یہ جہاں آیا
فناوالوں بقا چاہو تو مدحت خوب کرنے دو

جو تعریفِ بقا چاہو، تو سن لو عشق والوں سے
رسولﷲ کی الفت ،محبت خوب کرنے دو

لٹا کر جان و دنیا ہم تمہارے واسطے آئے
نہ حائل ہو فرشتوں اب زیارت خوب کرنے دو

اشدّأ علی الکفار گر تم سے نہ ہو پائے
نہ روکو ظالموں ہم کو تو شدّت خوب کرنے دو

چلو مانا کہ ہم ہی ان کے اعداء سے الجھتے ہیں
ہمیں اپنے میں رہنے دو یہ فطرت خوب کرنے دو

امام احمد رضا کے مظہرِ کامل کا مصرع ہے
یہ شوقِ زندگی کیا ہے وہ رحلت خوب کرنے دو

بروز حشر وہ آئیں تو عاصی جھوم کر بولیں
ابھی جنت میں کیا جائیں زیارت خوب کرنےدو

چلو بخشیں شرف دل کو حرم کے خار مہماں ہوں
عجب صورت عجب معنیٰ میں دعوت خوب کرنے دو

ارے فاراں ذرا مقطع سے پہلے دل کو سن لیتے
نہ روکو مدحت آقا کی کثرت خوب کرنے دو

...

عشق والے ہیں ہم بس رضا چاہئے

عشق والے ہیں ہم بس رضا چاہئے
ہاں رضا چاہئے بس رضا چاہئے

خاکِ میّت میری تجھکو کیا چاہئے
خاکِ پائے نبی سے لقا چاہئے

ان کے لطف و کرم میں کٹے زندگی
اور محشر میں ظلِّ ردا چاہئے

زندگی ساتھ چھوڑے میرا جس گھڑی
آپ آجائیں بس اور کیا چاہئے

اس جگہ کے شہنشاہ حسنین ہیں
اک جہاں کو جہاں پر جگہ چاہئے

مومنوں دشمنانِ نبی سے بچو
روشنی قبر میں گر سدا چاہئے

قائلِ بے بسی کو ملیں بے بسی
ہم کو لطفِ حبیبِ خدا چاہئے

مانگ لو مانگ لو دو جہاں کی بقا
مسکِ شاہ احمد رضا چاہئے

اے طبیبوں ہٹو دور ہو تم ذرا
عشق ہے یہ میرا کیوں دوا چاہئے

حشر میں ہم پکاریں گے جب یا نبی
آپ آکر کہو کیا بتا چاہئے

اے فرشتوں ہٹو اُمتی ہے میرا
اس پہ حق ہے میرا تم کیا چاہئے

دیکھ کر یہ سماں متقی بول اُٹھیں
عاصیوں ہم کو بھی یہ خطا چاہئے

کیاریانِ جناں صبر ان میں کہاں
اس جہاں میں ہی پائے شہا چاہئے

تیری فاران بعدِ جناں التجا
مجھ کو کوئے نبی کا پتہ چاہئے

...