غبارپا کو مہر ضوفگن کہنا ہی پڑتا ہے بتانِ خاک کوسیمیں بدن کہنا ہی پڑتا ہے جن آنکھوں نے مسرت کے سوا کچھ بھی نہیں دیکھا انھیں اب غیرت گنگ و جمن کہنا ہی پڑتا ہے بہت چاہا کہ تجھسے مدعائے دل چھپا رکھوں مگر مجبور ہو کر جان من کہنا ہی پڑتا ہے یہ شیشہ اور یہ سنگِ گراں یہ دشت پیمائی وفا کی راہ کو ہمت شکن کہنا ہی پڑتا ہے ضیاء جو پھوٹتی ہے قطرۂِ اشک ندامت سے اسے مہر درخشاں کی کرن کہنا ہی پڑتا ہے الجھ کر جس کے پیچ و خم میں دل الجھا ہی رہ جائے مجھے اس زلف کو دار و رسن کہنا ہی پڑتا ہے