ہیں اک ولیِ خدا حضرتِ ضیاء الدین
ہیں اِک وَلیِّ خدا حضرتِ ضیاءُالدین
جبھی تو کرتے ہیں ہم مِدحتِ ضیاءُالدین
زمانہ ’’قطبِ مدینہ‘‘ پکارتا ہے اُنھیں
اُفُق پہ چھائی ہے یہ شہرتِ ضیاءُالدین
ہیں وہ رضا کے مرید و خلیفہ، اے لوگو!
خوشا! بلند ہے یہ نسبتِ ضیاءُالدین
وصی مُحدّثِ سورت کے وہ بھی ہیں شاگرد
نصیب والوں میں ہیں حضرتِ ضیاءُالدین
تھے دوست مفتیِ اعظم، مبلغِ اعظم
بڑی ہی خوب تھی یہ صحبتِ ضیاءُالدین
ہیں آپ شیخِ عرب اور تاج و فخرِ عجم
خدا کا فضل ہے یہ شوکتِ ضیاءُالدین
مدینے میں وہ مناتے رہے سدا میلاد
جہاں نے دیکھی ہے یہ عادتِ ضیاءُالدین
کیا ہے فیضِ مسلسل کا سلسلہ جاری
جہاں میں بٹتی ہے یہ دولتِ ضیاءُالدین
ضیائے رُخ سے چمکتی تھی چشمِ اہلِ جہاں
تھی رشکِ مہر و قمر صورتِ ضیاءُالدین
بلند فکر و نظر اور دل رُبا کردار
جہاں کو بھائے نہ کیوں سیرتِ ضیاءُالدین
جوارِ گنبدِ خَضرا میں زندگی گزری
سدا چمکتی رہی قسمتِ ضیاءُالدین
ہوئے ہیں دفن ضیا نَزدِ اہلِ بیتِ نبیﷺ
سدا مہکتی رہے تربتِ ضیاءُالدین
نؔدیم! حشر میں میرے بھی کام آئے گی
خدا کے فضل سے یہ اُلفتِ ضیاءُ الدین