ہر سمت ہے تسلط برق و شرر چلیں

ہر سمت ہے تسلط برق و شرر چلیں
اے بلبلو! بنائیں کہیں اور گھر چلیں
ورنہ محال ہے کہ ہو تکمیل زندگی
آؤ دیار دار سے ہو گر گزر چلیں
سنتے ہیں وہ ہیں زیب دۂ بزم دیگراں
پھر جا کے کیا کریں گے وہاں ہم مگر چلیں
پھر بھی نہ پاسکیں گے کبھی منزل جنوں
اہل خرد بصورت شام و سحر چلیں
بجھنے لگے ہیں دیکھ ستاروں کے دیپ بھی
اب انتظار دیر ہوئی آ کہ گھر چلیں
گر ہے فراز عرشِ محبت کی آرزو
آجاؤ چاہ عشق میں اخؔتر اتر چلیں

تجویزوآراء