جمالِ خلیل  

شام و سحر سلام کو حاضر ہیں السلام

صلوٰۃ و سلام بدرگاہِ خیرالانام علیہ التحیتہ والسلام

اس کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ ہر شعر کا دوسرا مصرعہ کلام رضا سے مستفاد ہے۔مرتب)

شام و سحر سلام کو حاضر ہیں السلام
شمس و قمر سلام کو حاضر ہیں السلام
سب تاجور سلام کو حاضر ہیں السلام
جن و بشر سلام کو حاضر ہیں السلام
بس اک نگاہ لطف شہنشاہ بحر و بر
سب بحر و بر سلام کو حاضر ہیں السلام
سرخم ہر ایک اوج کا ہے در پہ آپ کے
سب کرّ وفر سلام کو حاضر ہیں السلام
گل ہیں نثار قدموں پہ خم ہے جبین کوہ
سنگ و شجر سلام کو حاضر ہیں السلام
اے جانِ کائنات و مقصودِ کائنات
سب خشک و تر سلام کو حاصل ہیں السلام
راحت ملی ہے دامن عالم پناہ میں
شوریدہ سر سلام کو حاضر ہیں السلام
حاضر ہیں سب دعاء و تمنا کے ساتھ ساتھ
عرض و اثر سلام و حاضر ہیں السلام
اٹھ جائے ہر نگاہ سے اب تو ہر اک حجاب
اہل نظر سلام کو حاضر ہیں السلام
چارہِ گرِ خلیؔل و مسیحائے کائنات
خستہ جگر سلام کو حاضر ہیں السلام

...

تعالیٰ اللہ یہ ہے اوجِ مقامِ احمدِ نوری

سید شاہ ابوالحسین احمد نوری﷜

منقبت

برائے عرس نوری رجب ۱۳۷۴؁ ھ مارہرہ مطہرہ ارسال کردہ شد

تعالیٰ اللہ یہ ہے اوجِ مقامِ احمدِ نوری
کہ قدسی ڈھونڈتے پھرتے ہیں بامِ احمدِ نوری
نہ کیوں لذت دہِ کوثر ہو جامِ احمدِ نوری
شہِ تسنیم سے ملتا ہے نامِ احمدِ نوری
جہاں پر فضل مولیٰ ہے بنامِ رحمتِ عالمﷺ
جہاں میں رحمتِ حق ہے بنامِ احمدِ نوری
یہاں سے کالے کوسوں دور ہیں تاریکیاں شب کی
منور صبح طیبہ سے ہے شامِ احمد ِ نوری
کلام احمدِ نوری کلامِ حق تعالیٰ ہے
کلامِ حق تعالیٰ ہے کلامِ احمد نوری
غلاموں کو سراغ منزلِ مقصود بتلا جا
تو کس منزل میں ہے ماہِ تمام احمدِ نوری
خدایا گلشن برکات سے ہم برکتیں پائیں
پھلے پھولے سدا نخل مُدام احمدِ نوری
مری جانب سے عرض اشتیاقِ دید کردینا
صبا جائے جو تو بہر سلامِ احمدِ نوری
مجلّٰی آیۂ تطہیر سے ہے پاک دامانی
زہے اکرامِ اِجدادِ کِرامِ احمدِ نوری
ملے مجھ روسیہ کو بھی تری تنویر کا صدقہ
میں صدقے تیرے اے فیضانِ عامِ احمدِ نوری
یہ نسبت ہی خلیؔل زار کو دارین میں بس ہے
کہ ہے پروردۂ فیضِ مُدامِ احمدِ نوری

...

وہ جام دے ہو جس میں زلالِ ابوالحسین

’’عنوان معرفت ہے مقام ابوالحسین‘‘

منقبت

 عرس رجب شریف ۱۳۸۲؁ ھ

وہ جام دے ہو جس میں زلالِ ابوالحسین
ساقی پھر آرہا ہے خیالِ ابوالحسین
امیدوار ایک تجلی کے ہم بھی ہیں
نظروں کو ہے تلاشِ جمالِ ابوالحسین
تصویریں ہیں یہ جاہ و جلالِ حضورﷺ کی
جاہِ ابوالحسین و جلالِ ابوالحسین
یارب میری جبیں سے کبھی آشکار ہو
تابندگئی ماہ جمالِ ابوالحسین
پیتے ہیں، مے پرستی کا الزام بھی نہیں
زاہد یہ دیکھ جامِ سفالِ ابوالحسین
قادر ہے وہ، جو چاہے تو یوں موت دے مجھے
یہ سر ہوا اور خاکِ نعال ابوالحسین
معراج زیست ہو جو کہیں عزرئیل یوں
آ اے خلیؔل شیریں مقالِ ابوالحسین

...

اللہ اللہ نو بہار عظمتِ احمد رضا

مِدحتِ احمد رضا﷜

منقبت اعلیٰ حضرت محدّث بریلوی قدس سرہ

اللہ اللہ نو بہار عظمتِ احمد رضا
غنچہ غنچہ ہے زبانِ مدحتِ احمد رضا
سایۂ قصرِ دنیٰ میں منزلت پایا ہوا
کتنا اونچا ہے مقامِ عزّتِ احمد رضا
قربِ حق کی منزلوں میں گم نہ ہوں کیوں رفعتیں
جلوہ گاہِ مصطفیٰﷺ ہے رفعتِ احمد رضا
مصطفیٰﷺ کی بھینی بھینی نگہتوں میں تہِ بہَ تہِ
مہکی مہکی ہے فضائے نکہتِ احمد رضا
التفاتِ جلوۂ غوث الوریٰ سے مُنسلِک
رشکِ صد جَلُوت ہے یعنی خلوتِ احمد رضا
لختِ دل ہے ٹھنڈی ٹھنڈی ضو سے باغ باغ
ماہ طیبہ کی ضیاء ہے طلعتِ احمد رضا
نور آنکھوں کو ملا خلوت گہِ دل کو سرور
جب تصور نے سنواری صورتِ احمد رضا
پھیکی پھیکی سی ہے ساقی، صبح و شامِ زندگی
آئے پھر گردش میں جامِ لذتِ احمد رضا
پھولتا پھلتا رہے گا باغِ مارہرہ مدام
کہہ رہی ہے یہ بہارِ برکت احمد رضا
بارک اللہ فیضِ عامِ حضرتِ اچھے میاں
اچھے اچھوں کا ہے قبلہ سیرتِ احمد رضا
جو خلیؔل زار کو اعزاز بخشا آپ نے
وہ بھی ہے اک شرمسارِ نسبتِ احمد رضا

(یہ منقبت بحیثیت صدر مشاعرہ پڑھی گئی، مشاعرہ دارالعلوم احسن البرکات میں ہوا تھا)

...

جلوۂ قدرت خدا ہے رضا

حق نما ہے رضا

جلوۂ قدرت خدا ہے رضا
ظل آیات کبریا ہے رضا
پر تو شانِ مصطفیٰﷺ ہے رضا
سایۂ فضل مرتضیٰ﷜ ہے رضا
صبح ایمان کی ضیا ہے رضا
شام عرفان کی جلا ہے رضا
کعبۂ عشق اصفیا ہے رضا
قبلۂ شوقِ اذکیا ہے رضا
اعلیٰ حضرت مجددِ ملّت
اہلسنت کا مقتدا ہے رضا
وارثِ وارثان علم نبیﷺ
عطرِ مجموعۂ ہدیٰ ہے رضا
فقہِ حنفی کے بے مثال فقیہ
بو حنیفہ کا لاڈلا ہے رضا
منتہی مبتدی ہیں جن کے حضور
ایسے لاکھوں کا منتہا ہے رضا
آبگینہ فَقَدْ رَأیَ الحق کا
سچ تو یہ ہے کہ حق نما ہے رضا
شاہِ بغداد کی توجہ سے
قادریوں کا رہَ نما ہے رضا
اچھے اچھوں سے نسبتوں کے طفیل
اچھے اچھوں کا پیشوا ہے رضا
باغِ برکات کی بہارِ نو
ہاں رضا ہاں رضا، رضا ہے رضا
کوئی مشکل نہیں مُجھے مشکل
میرا مشکل کشا رضا ہے رضا
ایں ہم از فیضِ مرشد است خلیؔل
جلوہ فرمود گاہے گاہے رضا

...

اللہ اللہ کس قدر ہے عز و شانِ قاسمی

گلستان ِ قاسمی

منقبت حضرت مرشد برحق شاہ ابوالقاسم عرف شاہ جی میاں قدس سرہ برموقع عرس شریف صفر ۱۳۶۷؁ ھ

اللہ اللہ کس قدر ہے عز و شانِ قاسمی
ڈھونڈتے پھرتے ہیں قدسی آستانِ قاسمی
جونبار معرفت، کام و دہانِ قاسمی
غرق موجِ ہُو، کلام درخشانِ قاسمی
واقفِ اسرارِ حق ہے راز دانِ قاسمی
نکتہ سنج و نکتہ رس ہے نکتہ دانِ قاسمی
ہے حبیب حقﷺ کی رحمت غوث اعظم﷜ کا کرم
لہلہاتا ہی رہے گا بوستانِ قاسمی
غنچہ غنچہ اس چمن کا سو بہاریں لائے گا
پھولتا پھلتا رہے گا گلستانِ قاسمی
ہیں جو انکے ماہ و خور انکا تو پھر کہنا ہی کیا
ہیں مثال مہ نجومِ آسمانِ قاسمی
سر جھکاتے ہیں ادب سے آستانِ پاک پر
قدر والے ہی ہوئے ہیں قدر دانِ قاسمی
ہے حجاب اکبر ان سے کینہ و بغض و حسد
کورِ باطن کیسے دیکھے عز و شان قاسمی
پر بچھاتے ہیں ملائک جن قدموں کیلئے
ان کی حسرت ہے کہ سر ہو پائیدانِ قاسمی
دین کا ڈنکا بجاتے پھر رہے ہیں چارسو
خادمانِ دین حق ہیں خادمانِ قاسمی
دھوم مچ جائے گی ہر سو آگئے باطل شکن
سانس جب منزل پہ لے گا کاروانِ قاسمی
سلسلہ ملتا ہے ان کا سرور کونینﷺ سے
مدحِ خوان مصطفیٰﷺ ہیں مدح خوانِ قاسمی
ان کے بدخواہوں کا حصہ ہے خسارِ دوجہاں
شاد ہیں کونین میں پیر و جوانِ قاسمی
طائرانِ قدس بھی مست ترنم ہیں خلیؔل
زندہ باشی اے ہزار بوستان قاسمی

...

تجلئ حق شمع عرفان قاسم

نذر ِ عقیدت

تجلئ حق شمع عرفان قاسم
محمدﷺ کا جلوہ ہے لمعانِ قاسم
ذرا دیکھئے تو ہے کیا شانِ قاسم
کہ ہے حق مُعَنْوَنْ بہ عنوان قاسم
بصد رشک رضوان ہے اللہ اللہ
ذرا دیکھئے شانِ دربانِ قاسم
گھٹائیں بنیں حلقۂ بدرِ کامل
جو رخ پر گری زلفِ پیچان ِ قاسم
عجب جمگھٹا میکدے پر لگا ہے
کہ قاسم ہیں اور تشنہ کامانِ قاسم
عدد کے لئے آپ قہر خدا ہیں
کہ باطل ہے لرزاں یہ ہے شانِ قاسم
شرابِ محبت کے مستانے آئے
عطا ہو کوئی جامِ عرفانِ قاسم
رہے بے خودئ محبت ہمیشہ
نہ چھوٹے کہیں دست و دامانِ قاسم
مجھے خوف کیا ہے مرے پاسباں ہیں
محمدﷺ، علی﷜، غوث﷜ و پیرانِ قاسم﷫
امنگیں مرے دل میں دیدار کی ہیں
خدایا! دکھ روئے تابانِ قاسم
نگہبان ہیں قاسم خلیؔل حزیں کے
خدائے جہاں ہے نگہبانِ قاسم

...

عیاں حالتِ دل کروں توبہ توبہ

منقبت مرشد برحق

(برسوں کی مفارقت کے بعد حاضری پر عرض کی گئی، عرس قاسمی ۱۳۷۴؁ ھ)

عیاں حالتِ دل کروں توبہ توبہ
ترے روبرو کچھ کہوں توبہ توبہ
میں اس آستاں سے پھروں توبہ توبہ
کہیں اور سجدے کروں توبہ توبہ
خودی سے گزر کر ترے سنگِ در پر
گروں اور گر کر اٹھوں توبہ توبہ
منور نہ ہو جو تری بندگی سے
میں اس زندگی پر مروں توبہ توبہ
تمھارا ہوں اور پھر سوائے تمھارے
کسی اور کا ہو رہوں توبہ توبہ
تمھاری عطاؤں کا پروردہ ہوکر
کسی غیر کا منہ تکوں توبہ توبہ
دل زاران کی تمنا کے ہوتے
کسی آسرے پر جیوں توبہ توبہ
خلیؔل آدمی کو رہے خوفِ حق بھی
نہ ظاہر مصفا، دروں، توبہ توبہ

...

آنکھوں میں ضو جمال محمد میاں کی ہے

جمال محمد میاں﷜

منقبت

حضور سیدی مرشدی السید الشاہ اولاد رسول محمد میاں قادری برکاتی قدس سرہ

آنکھوں میں ضو جمال محمد میاں کی ہے
دل میں ضیا کمال محمد میاں کی ہے
ملتی ہے اہل حق میں بڑی جستجو کے بعد
جو بات حال و قال محمد میاں کی ہے
آمین ربَّنا کا ملائک میں شور ہے
وہ آبرو سوالِ محمد میاں کی ہے
روشن دل و دماغ ہیں حب رسولﷺ سے
تنویر یہ جمال محمد میاں کی ہے
میرے حسن۱؎ کو میری نگاہوں سے دیکھئے
تصویر خد و خال محمد میاں کی ہے
انوار کا نزول، غلاموں پہ کیوں نہ ہو
تاریخ یہ وصال محمد میاں کی ہے
اس آستاں سے دولتِ ایماں ملی ہمیں
تشریح یہ نوالِ محمد میاں کی ہے
ہی خوش نصیب، جن کو ملا ہے یہ در خلیؔل
کیا بات خوش خصال محمد میاں کی ہے

۱؎ حضور احسن العلماء سید حسن میاں شاہ صاحب علیہ الرحمتہ و الرضوان

...

صبا دھوم کیسی یہ گھر گھر مچی ہے

’’چادر‘‘

صبا دھوم کیسی یہ گھر گھر مچی ہے
یہ کیسی مسرت ہے کیسی خوشی ہے
یہ کس مرد حق بیں سے ملنے چلی ہے
یہ کس کے لئے آج دلہن بنی ہے
کہ چادر بڑے کرو فر سے اٹھی ہے
کہیں رضویوؔں کی دُر افشانیاں ہیں
کہیں نوریوؔں کی در خشانیاں ہیں
کہیں قاسمیوؔں کی تابانیاں ہیں
غرض ہر طرف طرفہ سامانیاں ہیں
کہ عُرس ابوالقاسم احمدی ہے
لگا کر حنائے گلستانِ قاسؔم
چڑھا کر مئے جامِ عرفانِ قاسؔم
سنگھاتی ہوئی بوئے بستانِ قاسؔم
دکھاتی ہوئی رنگ دامانِ قاسؔم
نسیم سحر مست ہوکر چلی ہے
سماں کیا ہے رحمت کا آکر تو دیکھو
نگاہِ بصیرت اٹھا کر تو دیکھو
نزولِ ملائک کا منظر تو دیکھو
ذرا شاہِ قاسم کی چادر تو دیکھو
جِلو میں یہ کس کس کو لے کر بڑھی ہے
کبھی شکوۂِ جور و بیداد کرنا
کبھی حق تعالیٰ سے فریاد کرنا
کبھی ذکرِ سرکار بغداد﷜ کرنا
کبھی یا علی﷜ کہہ کے دل شاد کرنا
کبھی جوش میں نعرۂ یانبیﷺ ہے
مئے جام وحدت پئیں اور پلائیں
محبت کے نغمے سنیں اور سنائیں
ارادت کی آنکھوں سے اس کو لگائیں
چلو کچھ عقیدت کے موتی چڑھائیں
یہ چادر نہیں حُلّۂ قاسمی ہے
زمیں پر پہنچنے لگے ماہ پارے
اترنے لگے آسماں سے ستارے
درِ شاہ قاسم پہ ہیں جمع سارے
نقیبوں کا ہے شور غم ہوں کنارے
کہ رحمت یہاں بوندیاں بانٹتی ہے
کسی کی خوشامد نہ درکار ہوگی
وہ چشم الطاف سرکار ہوگی
گناہوں کی میرے خریدار ہوگی
یقیں ہے کہ رحمت طرفدار ہوگی
کہ محشر میں حامی مرا شاہؔ جی ہے
بہت ہوچکی شرم و غیرت کی خواری
بہت لے چکے لطفِ باد بہاری
بہت کرچکے جام و مینا سے یاری
مسلمانو! کبتک یہ غفلت شعاری
خدارا اٹھو اب سحر ہوچکی ہے
وہ کرتے ہی کیا رنج و غم کا مداوا
تمہیں لیڈروں نے تو اور مار ڈالا
نہ تہذیب یورپ نے تم کو سنوارا
مرے دوستو! یہ تو سوچو خدارا
مصیبت یہ کیوں تم پہ آکے پڑی ہے
دکھا دو زمانے کو دینی حمّیت
وگرنہ ہوا خونِ ناموس مِلّت
بڑھو آگے! زیر لوائے شریعت
کھلی ہے ابھی شاہراہ حقیقت
چلے آؤ رحمت ابھی بٹ رہی ہے
طواغیتِ کثرت کو ڈھاتی ہے چادر
جماعت کے معنیٰ بتاتی ہے چادر
عزیزو! مسلماں بناتی ہے چادر
تمہیں راہ عرفاں دکھاتی ہے چادر
اسی راہ میں راحت سرمدی ہے
خود اپنے جنوں کا نظارا کریں گے
تماشائی بن کر تماشا کریں گے
خدا جانے کیا ہوگا کیا کیا کریں گے
خلیؔل ایک دن قصد پورا کریں گے
مدینے چلیں گے اگر زندگی ہے

...