جانِ جاں تیری طلب میں جسے موت آئی ہے
کعبئہ نور ﷺ
جانِ جاں تیری طلب میں جسے موت آئی ہے
بخدا اس نے حیاتِ اَبَدِی پائی ہے
تیرے ہر ناز کی قرآں نے قسم کھائی ہے
تیرے رب کو تری اک اک ادا بھائی ہے
زُلف کب اس رخ روشن پر یہ لہرائی ہے
کعبئہِ نور پر رحمت کی گھٹا چھائی ہے
جستجو چاند کو تیری ‘ تیری سورج کو تلاش
ایک ہم کیا ہیں زمانہ تیرا شیدائی ہے
لوٹتا ہے کوئی قدموں پہ ‘ کوئی دامن پر
حشر میں آج گنہگاروں کی بن آئی ہے
یہ شگوفوں کا تبسم یہ ہنسی کلیوں کی
تیرے جلووں کی یہ سب انجمن آرائی ہے
میرے عصیاں مجھے لے آئے ہیں آقا کے حضورﷺ
ساتھیو! کتنی مبارک مری رسوائی ہے
چمنِ دل کا ہر اک پھول ہے فردوس بکف
تیری یاد آئی ہے یا آج بہار آئی ہے
باتوں باتوں میں چھڑی ہے تیری زلف کی بات
دیکھتے دیکھتے رحمت کی گھٹا چھائی ہے
آپﷺ کی یاد ہے ‘ آنسو ہیں ‘ شب ہجراں میں
بزم کی بزم ہے تنہائی کی تنہائی ہے
میں نے سر رکھ ہی دیا سنگ در اقدس پر
لوگ کہتے رہے دیوانہ ہے سودائی ہے
آج محشر میں ہے کس اوج پر حاؔفظ کا نصیب
دامن سرور عالم میں جگہ پائی ہے
(۲۳ صفر ۱۳۹۴ھ ‘ اکتوبر ۱۹۷۴ء برمشاعرہ دارالعلوم امجدیہ کراچی)