جو پیش ان کو کبھی ہدیۂ لہو کرتے

جو پیش ان کو کبھی ہدیۂ لہو کرتے
تو اس طرح انھیں ہم اور خوبرو کرتے
صبا کو غرق یم خون آرزو کرتے
چمن کے ہر ورق گل کو شعلہ رو کرتے
گلوں کو خون تمنا سے سر خرو کرتے
چلے ہیں آج وہ فیضان رنگ و بو کرتے
انھیں کے لطف مسلسل سے شہ ملی ورنہ
مجال کیا تھی ہماری کہ آرزو کرتے
ہمیں تو لوٹ لیا احترام الفت نے
وہ آئے اور گئے ہم رہے وضو کرتے
وہ یم سے لفظ تمنا ہی سن کے چونک پڑے
بڑا غضب تھا اگر شرح آرزو کرتے
کسی کی غیرت خفتہ کی نیند کب جاتی
اگر نہ منت پیمانہ وسبو کرتے
وہ میرے دل میں چھپے ہیں نہ جان لے کوئی
یہ بات تھی جو رہے ان کی جستجو کرتے
اک آہ سرد دل عندلیب سے نکلی
ہمیں جو دیکھ لیا ان سے گفتگو کرتے
غرور حسن کے اخؔتر حواس اڑجاتے
جو میرا آئینئہ دل وہ رو برو کرتے

تجویزوآراء