کاش اس منزل پہ میرا ذوق رندانہ رہے تیرا افسانہ جہاں پر میرا افسانہ رہے اللہ اللہ رے تجاہل آپ کا اس رند سے جیسے بیگانے کے آگے کوئی بنگانہ رہے بس مرے حسن تخیل سے سنوارا کر اسے کیوں تری زلفِ حسیں منت کش شانہ رہے کم نہیں یہ التفات برق چشم خشم گیں کیا ہوا زدمیں اگر میرا ہی کاشانہ رہے دیکھ تجھ سے کہہ رہی ہے کیا مری تشنہ لبی رہتی دنیا تک ترا گردش میں پیمانہ رہے عقل والے جن کی زلفوں میں الجھ کر رہ گئے وہ شکار شعبدہ بازئ رندانہ رہے مجھ کو راس آئی کہاں ہوش وخرد کی بندگی کیوں نہ میری بات اے اخؔتر حکیمانہ رہے