خدائے گردشِ لیل و نہار کیا ہوگا

خدائے گردشِ لیل و نہار کیا ہوگا
مٓال مرحلۂ انتظار کیا ہوگا
کہیں اجل کے ارادے بھی خام ہوتے ہیں
تسلیاں وہ ہمیں دیں ہزار کیا ہوگا
متاع قلب و جگر کی وہ لاج رکھ نہ سکے
اب اور حادثۂ روزگار کیا ہوگا
مٓال آتشِ نمرود دیکھنے والا
خرد کی بخیہ گری کا شکار کیا ہوگا
 سوادِ زلف میں خوابیدہ دل نہ جاگ اٹھے
چلے ہیں آج وہ کرنے سنگار کیا ہوگا
خدا بچائے بڑے سادہ لوح غنچے ہیں
خزاں چلی ہے برنگ بہار کیا ہوگا
ظہور حسن کی اخؔتر ہماہمی کے سوا
نگار خانۂ روز شمار کیا ہوگا

تجویزوآراء