کون کہتا ہے آنکھیں چرا کر چلے

و ہ حسیں کیا جو فتنے اٹھا کر چلے

کون کہتا ہے آنکھیں چرا کر چلے
کب کسی سے نگاہیں بچا کر چلے

کون ان سے نگاہیں لڑا کر چلے
کس کی طاقت جو آنکھیں ملا کر چلے

وہ حسیں کیا جو فتنے اٹھا کر چلے
ہاں حسیں تم ہو فتنے مٹا کر چلے

ان کے کوچہ میں منگتا صدا کر چلے
رحمت حق ہو ہر دم دعا کر چلے

قصۂ غم سنایا سنا کر چلے
جان عیسیٰ دوا دو دعا کر چلے

رب کے بندوں کو رب سے ملا کر چلے
جلوۂ حق وہ ہم کو دکھا کر چلے

مَنْ رَاٰنِیْ رَأَالْحَق سنا کر چلے
میرا جلوہ ہے حق کا جتا کر چلے

جز بشر اور کیا دیکھیں خیرہ نظر
اَیُّکُمْ مِثْلِیْ گو وہ سنا کر چلے

جگمگا ڈالیں گلیاں جدھر آئے وہ
جب چلے وہ تو کو چے بسا کر چلے

کیسا تاریک دنیا کو چمکا دیا
سارے عالم میں کیسی ضیا کر چلے

کوئی مانے نہ مانے یہ وہ جان لے
سیدھا رستہ وہ سب کو بتا کر چلے

کوڑیوں کوڑھیوں کے لئے کوڑھ دور
اچھا چنگا وہ خاصہ بھلا کر چلے

یاد دامن سے مرجھائی کلیاں کھلیں
فیض سے اپنے غنچے کھلا کر چلے

شب کو شبنم کی مانند رویا کئے
صورت گل وہ ہم کو ہنسا کر چلے

بد سے بد کو لیا جس نے آغوش میں
کب کسی سے وہ دامن بچا کر چلے

جو کمینے تھے ان کو معزز کیا
وہ رذیلوں کو سینے لگا کر چلے

سب کو اسلام کا تم نے بخشا شرف
گرتے پڑتوں کو پیارے اٹھا کر چلے

این و آں اور چنین و چناں سرورا
تیرے در سے سب اپنا بھلا کر چلے

جس کا ثانی ہوا اور نہ ہے اور نہ ہو
وہ عطا کر چلے وہ سخا کر چلے

عمر بھر اعدا ان کو ستایا کئے
اور وہ دشمنوں کو دعا کر چلے

سخت اعدا کو بھی عفو فرما دیا
رحمت حق کی شانیں دکھا کر چلے

جسم پر نور کا یوں تو سایہ نہ تھا
اور پتھر میں نقشے جما کر چلے

مرتے دم سر در پاک پر رکھ دیا
اس ادا سے قضا ہم ادا کر چلے

جب قمر اک اشارے سے ٹکڑے کیا
بولے کافر وہ جادو سا کیا کر چلے

معجزوں کو وہ جادو بتاتے رہے
آپ اپنے پہ ظالم جفا کر چلے

جن کے دعوے تھے ہم ہی ہیں اہل زباں
سن کے قرآں زبانیں دبا کر چلے

کئی صحابی تھے پر تھی یہ ہیبت حق
گردنیں سارے کافر جھکا کر چلے

اور گردن کشی کی تو مارے گئے
سب نے جانا کہ ظالم خطا کر چلے

جن کو اپنا نہیں غم ہمارے لئے
دوڑے جھپٹے وہ پاؤں اٹھا کر چلے

ابھی میزان پر تھے ابھی پل پہ ہیں
پل میں گرتے بچائے بچا کر چلے

سر کوثر سنا شور پیاسوں کا جب
پہونچے شربت پلایا پلا کر چلے

کسی جانب سے آئیں ندائیں حضور
مجرموں کی رہائی کا کیا کر چلے

دم میں پہونچے وہ حکم رہائی دیا
ان کو دوزخ سے پھیرا پھرا کر چلے

داغ دل ہم نے نوریؔ دکھا ہی دیا
رد دل کا فسانہ سنا کر چلے

سامانِ بخشش


متعلقہ

تجویزوآراء