کون ٹھہرا ہے کبھی عزم جواں کے سامنے کوہ جھک جاتے ہیں اپنے کارواں کے سامنے آج ہے عشق جواں حسن جواں کے سامنے جیسے اک برق پتاں برق پتاں کے سامنے اشکہائے غم کی دل افروز قندیلیں لئے آسماں اک اور بھی ہے آسماں کے سامنے خنجر ابرو اگر تیری عنایت ساتھ ہو پھر تو موت اچھی ہے عمر جاوداں کے سامنے یہ فضا یہ موسم گل اور یہ کالی گھٹا خوف عصیاں جرم ہے ایسے سماں کے سامنے دل کی بات آئے نہ لب تک لاکھ چاہا تھا مگر کچھ نہ اپنی چل سکی اشک رواں کے سامنے ہوش میں آ اے طلبگار دوائے دردِ دل ایسی ایسی بات وہ بھی مہ و شاں کے سامنے کیا کروں میں اس جبیں کو اے مرے شیخ حرم خود ہی جھک جاتی ہے ان کے آستاں کے سامنے اشکہائے آتشیں کی تاب لانے سے رہی میں نے پھیلایا جو دامن کہکشاں کے سامنے اے حسیں پھولو تمہیں تو خار ہونا تھا یہاں اب نہ بچ کر رہ سکو گے باغباں کے سامنے اخؔتر ان کی بے رخی نے کر دیا افشائے راز خود ہی رسوا ہوگئے سارے جہاں کے سامنے