ملی تقدیر سے مجھ کو صحابہ کی ثنا خوانی
ملی تقدیر سے مجھ کو صحابہ کی ثنا خوانی
ملی تقدیر سے مجھ کو صَحابہ کی ثنا خوانی
مِلا ہے فیضِ عثمانی مِلا ہے فیضِ عثمانی
کئی دن تک رہے مَحصُور بے دانہ و بے پانی
شہادت حضرتِ عثمان کی بے شک ہے لاثانی
نبی کے نور دو لیکر وہ ذُوالنُّورَین کہلائے
اُنہیں حاصل ہوئی یوں قُربتِ مَحبُوبِ رَحْمانی
نبی نے تیرے بدلے ’’بَیْعَتِ رِضْواں‘‘ میں کی بَیْعَت
کہا قرآن نے دستِ نبی کو دَسْتِ یزدانی
تمہِیں کو جامِعِ قرآن کا حق نے دیا منصب
جَمْعْ قرآں کو کر کے کی عطا اُمّت کو آسانی
خدا بھی اور نبی بھی خود علی بھی اس سے ہیں ناراض
عَدو ان کا اُٹھائے گا قیامت میں پریشانی
عداوت اور کینہ ان سے جو رکھتا ہے سینے میں
وُہی بد بخت ہے مَلعون ہے مَردود شیطانی
ہم ان کی یاد کی دھومیں مچائیں گے قیامت تک
پڑھے ہو جائیں جل کر خاک سب اَعْدائے عثمانی
اِمامُ اْلاَسْخِیا ! کردو عطا حِصہ سخاوت کا
قَناعَت ہو عِنایت، دَیں نہ دولت کی فِراوانی
مجھے اپنی سَخاوت کےسمندر سے کوئی قَطرہ
عطا کردو نہیں درکار مجھ کو تاجِ سلطانی
عُلوئے شان کا کیوں کر بیاں ہو آپ کی پیارے
حیا کرتی ہے مولیٰ آپ سے مخلوقِ نورانی
سُخن آکر یہاں عطّاؔر کا اِتمام کو پہنچا
تِری عظمت پہ ناطِق اب بھی ہیں آیاتِ قرآنی