موجوں کا طوفان ہے کیسا

موجوں کا طوفان ہے کیسا
ساحل بھی حیران ہے کیسا
تیرے ستم پر تجھ کو دعا دوں
دیکھ مرا ارمان ہے کیسا
صبح کو وعدہ شام کو دھوکا
جانے ترا پیمان ہے کیسا
لب پہ ہنسی اور ہاتھ میں پتھر
آج کا یہ انسان ہے کیسا
بزم میں اس کی اخؔتر بھی ہے
لیکن وہ انجان ہے کیسا

تجویزوآراء