نہ یہ قصہ ہے کوئی اور نہ یہ کوئی کہانی ہے
نہ یہ قصّہ ہے کوئی اور نہ یہ کوئی کہانی ہے
نہ یہ زورِ قلم ہے اور نہ اس کی در فشانی ہے
حقیقت سے جو ہے بھر پور ایسی حق بیانی ہے
ضیاءُ الدین احمد کی دلوں پہ حکمرانی ہے
نہ رُکنے پائے راہِ شرع و سنّت سے قدم اُن کے
جہاں کی رفعتیں اُن کی نظر میں راہ کے تنکے
ضیاءُ الدین احمد قادری فیضِ مسلسل تھے
یہ تھے مجموعۂ حسنات الطافِ مکمّل تھے
یہ اپنے چاہنے والوں کی ہر مشکل کا بھی حل تھے
کتابِ زیست کے ہر باب کی شرحِ مفصّل تھے
گزارے چین کے دن گنبدِ خَضرا کے سائے میں
رہے اَسّی برس تک یہ شہ بطحٰی کے سایہ میں
ضیاءُ الدین تھے، روحانیت کے جوہرِ قابل
بفضلِ حق تعالیٰ تھے علومِ دین کے حامل
یہ پابندِ شریعت بھی تھے اور تھے ذاکر و شاغل
خلافت قادری سلسلہ کی ان کو تھی حاصل
امامِ اہلِ سنّت نے دیا ان کو وثیقہ بھی!
یہ تھے احمد رضا خاں اعلیٰ حضرت کے خلیفہ بھی
فیوضِ پیر سے دارین کی دولت مِلی ان کو
بزرگوں سےچلی آئی تھی وہ نعمت مِلی ان کو
مدینے میں رسولِ پاک کی قربت مِلی ان کو
یہ قربت کیا ملی بس جیتے جی جنّت مِلی ان کو
بہر رُخ، زندگی حضرت کی تابندہ نظر آئی
پسِ مردن بھی یہ ہستی درخشندہ نظر آتی
تھی عمر اٹھارہ سال ان کی، مگر یہ دیکھیے قسمت
وطن کو چھوڑ کر کی آپ نے بغداد کو ہجرت
فیوضِ غوثِ اعظم سے ہوئے جب بہرہ ور حضرت
بڑھی ایمان کی دولت ، ملی عِرفان کی نعمت
مِلی ہے آٹھ سال ان کو سعادت حاضری کی بھی
ہوئی ہے قادری جلوے سے روشن زندگی اُن کی
دل و روح و نظر تھے قادری فیضان سے روشن
وہ انوارِ فیوضِ غوث کا تھا ان کا دل مسکن
ہوا سر سبز اور شاداب بھی عِرفان کا گلشن
شریعت کے بنے مخزن، طریقت کے ہوئے معدن
حضورِ غوثِ اعظم سے تعلّق وہ تعلّق ہے
غلامی اِن کو مِل جائے تو پھر سب کچھ تَصدّق ہے
وہی ہیں پیرِ پیراں ، میرِ میراں غوثِ صمدانی
خدا نے جن کو بخشا رتبۂ محبوبِ سبحانی
خزانہ آپ کا ہے نازشِ گنجِ سلیمانی
جہانِ اولیا پر حشر تک ہے ان کی سُلطانی
فیوضِ پیکراں ہے آستانہ غوثِ اعظم کا
خُدا ہے غوثِ اعظم کا، زمانہ غوثِ اعظم کا
گھڑی آخر وہ آئی اور بھی جب سرفرازی کی
نئی آئی نظر اِک شان حق کی کارسازی کی
ملی ہے قوّتِ پرواز ان کو شاہ بازی کی
بشارت میں تھی پنہاں شان بھی بندہ نوازی کی
ہوا ارشاد حضرت ارضِ طیبہ کو کریں ہجرت
قوی تر تا کہ ہوجائے قوی بغداد کی نسبت
بشارت ملتے ہی حضرت مدینے کو چلے آئے!
جو دولت غوث نے دی تھی اُسے بھی ساتھ لے آئے
نہ گھبرائے، اگرچہ آئے نازک مرحلے آئے
اُمنگیں تازہ تازہ اور نوادر حوصلے لائے
وہ جب آئے تو ترکوں کی خلافت کا زمانہ تھا
مگر پیشِ نطر اُن کے نبی کا آستانہ تھا
شریفِ مکّہ کا دَور آ گیا اُن کی نگاہوں میں
نشیب آئے فراز آئے ہمیشہ اُن کی راہوں میں
کبھی تھے عامیوں میں اور کبھی تھے شہنشاہوں میں
نظر آئے برابر مسجدوں میں خانقاہوں میں
مدینے میں سعودی دَور بھی برسا برس دیکھا
ذرا سا بھی نہ بدلے آپ، گو سارا جہاں بدلا
یہ عالم جس پہ نازاں ہو، مقدّر ایسا پایا تھا
رسول اللہ نے ان کو مدینے میں بلایا تھا
نبی کے نور نے ہستی کو ان کی جگمگایا تھا
شرف یہ اختصاصی آپ کے حصّے میں آیا تھا
رسولِ پاک جس پر مہرباں، حق مہرباں ہوگا
ہُوا حق مہرباں تو مہرباں سارا جہاں ہوگا
نظارہ گنبدِ خَضرا کا روز و شب یہ کرتے تھے
ان ہی اَنوار سے ممدوح کے جوہر نکھرتے تھے
یہ بحرِ معرفت میں ڈوبتے تھے اور اُبھرتے تھے
ہمیشہ نت نئے صدقوں سے دامن اپنا بھرتے تھے
مقدّر کے دھنی بے شک ضیاءُ الدین احمد تھے
بفیضِ حُبِّ ختم المرسلین اونچے ہوئے تھے
رہا اَسّی برس تک سلسلہ رُشد و ہدایت کا
شریعت کا، طریقت، معرفت کا اور حقیقت کا
رکھا اونچا ہی جھنڈا آپ نے حق و صداقت کا
ملا تھا آپ کو ثمرہ بھی فیضانِ رسالت کا
اندھیرے آئے تو چمکے یہ حق کی روشنی بن کر
ہر اک عہدِ حکومت میں رہے حضرت جری بن کر
خدا و مصطفیٰ سے رابطہ اور دُنیا سے بے گانہ
رہے ہیں حُبِّ شمعِ غوث پر یہ بن کے پروانہ
یہی ہے مختصر سے مختصر حضرت کا افسانہ
خزانہ دولتِ دارین کا تھا ان کا کاشانہ
نہ ہٹنے پائے راہِ شرع و سنّت سے قدم ان کے
نبی کے فیض سےجاری رہے لطف و کرم ان کے
غمِ رحلت وہ ہے جو خون کے آنسو رُلاتا ہے
بھلاؤ لاکھ پھر بھی لُطف ان کا یاد آتا ہے
یہاں آتا ہے جو بھی ایک دن دنیا سے جاتا ہے
یہ سب ہے ٹھیک، مرؔزا! دل کہاں سے چین پاتا ہے
ہوا گم دین و دُنیا کا گُہر دن کے اُجالے میں
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں