نور ہی نور ہے ضیاء ہی ہے
نور ہی نور ہے ضیاء ہی ہے
تخت زریں ہے نہ تاج شاہی ہے
کیا فقیرانہ بادشاہی ہے
فقیر پر شان یہ کہ زیرنگیں
ماہ سے لے کے تابماہی ہے
روئے انور کے سامنے سورج
جیسے اک شمع صبح گاہی ہے
سایۂ ذات کیوں نظر آئے
نور ہی نور ہے ضیا ہی ہے
ریت آقا کی چھوڑ دی ہم نے
اپنی مہمان اب تباہی ہے
اک نگاہ کرم سے مٹ جائے
دل پہ اخؔتر کے جو سیاہی ہے
شاعر: حضور تاج الشریعہ مفتی اختر رضا خان قادری ازہری