قفسِ جسم سے چھُٹتے ہی یہ پرّاں ہوگا

جان ایماں ہے محبت تری

قفس جسم سے چھُٹتے ہی یہ پرّاں ہوگا
مرغ جاں گنبد خضرا پہ غزل خواں ہوگا

روز و شب مرقد اقداس کا جونگراں ہوگا
اپنی خوش بختی پہ وہ کتنا نہ نازاں ہوگا

اس کی قسمت کی قسم کھائیں فرشتے تو بجا
عید کی طرح وہ ہر آن میں شاداں ہوگا

اس کی فرحت پہ تصدق ہوں ہزاروں عیدیں
کب کسی عید میں ایسا کوئی فرحاں ہوگا

چمن طیبہ میں تو دل کی کلی کھلتی ہے
کیا مدینے سے سوا روضۂ رضواں ہوگا

وہ گلستاں ہے جہاں آپ ہوں اے جان جناں
آپ صحرا میں اگر آئیں گلستاں ہوگا

آپ آجائیں جو چمن سے تو چمن جان چمن
خاصہ اک خاک بسر دشت مغیلاں ہوگا

جان ایماں ہے محبت تری جان جاناں
جس کے دل میں یہ نہیں خاک مسلماں ہوگا

درد فرقت کا مداوا نہ ہوا اور نہ ہو
کیا طبیبوں سے مرے درد کا درماں ہوگا

جس نے تبرید بتائی خفقاں ہوگا اسے
کیا ٹھنڈائی سے علاج تپ ہجراں ہوگا

کہر بائی نہ ہو کیوں رنگ مرے چہرے کا
جتنا ایقان بڑھا اتنا ہی ترساں ہوگا

نور ایماں کی جو مشعل رہے روشن پھر تو
روز و شب مرقد نوری میں چراغاں ہوگا

اک غزل اور چمکتی سی سنادے نورؔی
دل جلا پائے گا میرا ترا احساں ہوگا

سامانِ بخشش


متعلقہ

تجویزوآراء