رہوں گا میں رہین منت آہ و فغاں کب تک نہ آئے گا میری بالیں پہ وہ جان جہاں کب تک چلو فرش زمیں کو غیرت ہفت آسماں کردیں سنہیں یہ اشک ہائے غم غرورِ کہکشاں کب تک یہ تیشہ اور یہ سنگ گراں یہ دشت پیمائی نیاز عشق کا ہوتا رہے گا امتحاں کب تک مجھے ڈر ہے زمانے کے قدم آگے نہ بڑھ جائیں خیال خطرۂ منزل امیر کارواں کب تک منائیں خیریت اپنی حریفان گل ولالہ غبار خاک پر ہوگا فریب کہکشاں کب تک مجھے معلوم ہے اے اشتراکیت کے فرزندو حصار عافیت کے دعوہائے بے نشاں کب تک نہ رکھ صہبائے عرفاں کورہینِ میکدہ ساقی رہے گی خوگر غفلت سرشت میکشاں کب تک دل کہسارے پھوٹی ہے جوئے نرم رو اخؔتر ہمارا سنگ دل ہم پر نہ ہوگا مہرباں کب تک غرور حسن ہونے کو ہے نذر گردش دوراں نیاز عشق کا ہوتا ہے گا امتحاں کب تک بھرم کھل کررہے گا لیڈران قوم کا اک دن غبار خاک پر ہوگا فریب کہکشاں کب تک زمانے کا تقاضا ہے پلا اب جام بیداری رہے گی خوگر غفلت سرشت میکشاں کب تک کسی دن رنگ لائے گا یہ خون آرزو اخؔتر نہ شق ہوگا مرے نالوں سے سنگ آستاں کب تک