رخ پہ سبھوں کے ایک مسرت سی چھاگئی
رخ پہ سبھوں کے ایک مسرت سی چھاگئی
چپکے سے کیا نسیم گلوں سے بتاگئی
جب مشکلوں نے میرا تعاقب کیا کبھی
میری نگاہ جانب مشکل کشاگئی
بزم بتاں میں کیسی یہ سرگوشیاں ہیں آج
ماہ رجب کی تیرہویں تاریخ آگئی
محروم آرزو میں رہوں یہ محال ہے
ٹکرا جو ان کے در سےمری التجا آگئی
میرے کریم کی جو نگاہ کرم اٹھی
اپنے تو اپنے غیر کی بگڑی بناگئی
آنکھوں سے بے حجاب ہے تقدیر کائنات
کس طرح میں کہوں کہ انھیں نیند آگئی