سلجھا دے جو شانہ دم بھر میں الجھے ہوئے گیسو امت کے

سلجھا دے جو شانہ دم بھر میں الجھے ہوئے گیسو امت کے
تلواروں کی چھاؤں میں ایسا اک شانہ بنانے جاپہونچا
مانا کہ تن تنہا ہے کھڑا میدان میں لیکن شان ہے یہ
اس شیر کے آگے جو آیا وہ اپنے ٹھکانے جاپہونچا
کربل کے رتیلے میداں میں خود اپنے لہو کی دھاروں سے
تقدیر کا مالک امت کی تقدیر بنانے جاپہونچا
ہوشہپر جبرائیلی پریادوشِ نبی یا نیزے پر
سراونچا رہے گا اونچا ہی یہ راز بتانے جاپہونچا
کوثر کے کنارے حوروں کے جھرمٹ میں ہے ننھا سا کوئی
معصوم مجاہد جنت میں کیا پیاس بجھانے جاپہونچا
ہم شکل پیمبر وہ دیکھو انوار کے جھرمٹ میں نکلا
ذروں کو بھی رشک مہرجہاں افروز بنانے جاپہونچا
وہ قصر جہاں وہ دین پلا اسلام ہے جس کا نام اخؔتر
یہ ابن زیاد اللہ اللہ اس قصر کو ڈھانے جاپہونچا

تجویزوآراء