سنتے ہیں کہ وہ جان چمن آئے ہوئے ہیں
سنتے ہیں کہ وہ جان چمن آئے ہوئے ہیں
پھر غنچے بتا کس لئے کمہلائے ہوئے ہیں
روشن نظر آتے ہیں دروبامِ تمنا
تھوڑی سی نقاب آج وہ سرکائے ہوئے ہیں
پرواہ نہیں اپنا بنائیں نہ بنائیں
ہم تو انھیں اپنائے تھے اپنائے ہوئے ہیں
کیا بات ہے یہ داور محشر کے مقابل
ہم ہیں بت خاموش وہ شرمائے ہوئے ہیں
اخؔتر ہے بہت خوب یہ انداز تکلم
تنہا ہیں مگر بزم کو گرمائے ہوئے ہیں