تیرے پائے کا کوئی ہم نے نہ پایا خواجہ

تیرے پائے کا کوئی ہم نے نہ پایا خواجہ

تیرے پائے کا کوئی ہم نے نہ پایا خواجہ

تو زمیں والوں پہ اللہ کا سایا خواجہ

 

ہے قلم رو میں ترے ہند کی پوری اقلیم

ہند کے سارے ولی تیری رعایا خواجہ

 

مکر شیطاں سے مریدوں کو بچالیتے ہو

اس لیے پیر تمہیں اپنا بنایا خواجہ

 

جوشِ مستی میں کئی آئے ہیں ایسے لمحے

میں بہک جاتا مگر تم نے بچایا خواجہ

 

بے خودی میں ،میں خودی کو ہی خدا کہہ دیتا

شکر ہے تم نے مگر یاد دلایا خواجہ

 

میری کشتی ابھی ساحل سے لگی جاتی ہے

اک ذرا تم نے اگر ہاتھ لگایا خواجہ

 

براطِ عشق پہ مضراب عمل سے تم نے

نغمہ توحید کا کیا خوب سنایا خواجہ

 

سیؔد خستہ کو امید حضوری کب تھی

صدقے جاؤں ترے کیا خوب بلایا خواجہ

تجویزوآراء