تیری خوش ادائیوں سے ہے یہ جانفزا زمانہ

تیری خوش ادائیوں سے ہے یہ جانفزا زمانہ
ذرا مسکرا تو دیجئے با ادائے دل ربانہ
لگے حسن ماہ پر بھی ذرا ایک تازیانہ
ذرا گلعذار چہرے سے نقاب تو ہٹانا
مرے جذبۂ محبت سے ہے باخبر زمانہ
جہاں سر جھکا دیا ہے وہیں ان کا آستانہ
ارے اودل شکستہ یہ ہے کیسی آہ ریزی
مجھے ڈر ہے جل نہ جائے کہیں ان کا آستانہ
انھیں بجلیوں کی زدپر مری حسرتیں ہیں یارب
جنھیں  سونپ دے رہا ہوں میں اب اپنا آشیانہ
میں بشر ہوں میرے شہپر کی اڑان کچھ نہ پوچھو
ہے فضا میں طائرانہ تو فلک پہ صاعقانہ
مجھے ان کی برق نظری نے عطا کی زندگانی
یہ غلط ہے بجلیوں کی ہے سرشت قاتلانہ
کوئی میرے دل سے پوچھے کہ یہ حسن کیا بلا ہے
یہ خرامِ حشر ساماں یہ ادائے کافرانہ
یہ خدا کی شان دیکھو ہے ہمیں کو حکم سجدہ
کبھی سجدہ گاہ عالم تھا ہمارا آستانہ
کہیں بجلیوں کی دھمکی کہیں آندھیوں کا کھٹکا
ہے اسی میں خیر اخؔتر کہ رہوں میں بے ٹھکانہ

تجویزوآراء