وہ محبت وہ مروت وہ شرافت تیری

پیر عبدالغفور

وہ محبت وہ مروت وہ شرافت تیری
رقص کرتی ہے نگاہوں میں عقیدت تیری
جامۂ فقر میں تو بخت کا اسکندر تھا
آج اعلان یہ کرتی ہے مشخیت تیری
دامن اشرف سمنان ترے سر پر ہوگا
رشگ لائیگی قیامت میں یہ نسبت تیری
نزع کے کرب جگر پاش سے محفوظ رکھا
رب کو منظور تھی کس درجہ رعایت تیری
تو نے پیری میں کئے کام جواں سالی کے
کتنی مضبوط و توانا تھی نقاہت تیری
عشق کہتے ہیں اسے اس کو فنا کہتے ہیں
صورت شیخ کی آئینہ تھی صورت تیری
کردیا اشرفی سرکار نے سرکار تجھے
عظمت شیخ کی غماز ہے عظمت تیری
دن کو ہشیار رہے رات کو بیدار رہے
تیرے چہرے سے نمایاں تھی ریاضت تیری
جھوم کر اس پہ سدا رحمت باری بر سے
نکہت و نور میں ڈوبی رہے تربت تیری

تجویزوآراء