وہ شہنشاہ روزگار ہوئے
نذر عقیدت
بارگاہ غوث العالم سید اشرف جہانگیر سمنانی کچھوچھوی
وہ شہنشاہ روزگار ہوئے
مظہر شان کردگار ہوئے
اے خوشا بخت شاہ سمنانی
ہم غریبوں کے غم گسار ہوئے
تخت سمناں کو مار کر ٹھوکر
سارے عالم کے تاجدار ہوئے
ان کے جلوؤں سے ہے جہاں روشن
شمع اشرف پہ جو نثار ہوئے
پھر خزاں نے یہاں کا رخ نہ کیا
جب سے وہ نازش بہار ہوئے
میرے ساقی نگاہِ لطف و کرم
تشنہ لب پھر یہ بادہ خوار ہوئے
کتنے ناوک فگن یہاں اخؔتر
غمزۂ حسن کے شکار ہوئے