یہ گل نہیں یہ عنادل نہیں یہ خار نہیں وہ کون ہے جو ستم خوردۂ بہار نہیں یہ تیرے پند سر آنکھوں پہ ناصحا لیکن خدا گواہ محبت پہ اختیار نہیں پھر اس میں آیا کہاں سے کمالِ رعنائی اگر یہ کاہکشاں انکی رہگذار نہیں بس اپنی شومئی قسمت سے جی لرزتا ہے یہ مت سمجھنا مجھے تجھ پہ اعتبار نہیں بروز حشر شفاعت کا دیکھ کے منظر وہ کون ہوگا جو کہہ دے گناہ گار نہیں تمام خلق کا میں خیر خواہ ہوں اے دوست خدا گواہ کسی سے مجھے غبار نہیں نہیں تو شیخ جبیں خود بخود ہی جھک جاتی یہ کوئی اور جگہ ہے مقام یار نہیں یہ کہہ کے کود پڑے آگ میں خلیل اخؔتر کہ نار عشق سے بڑھ کر تو کوئی نار نہیں