ظلم ڈھاتی آگئی ہے لشکر بادخزاں

امتحان وفا

ظلم ڈھاتی آگئی ہے لشکر بادخزاں
زرد ہے رخسار گل اندوہگیں ہیں بلبلاں
ہوگئیں چشمان چرخ نیلگوں یوں خونفشاں
جس طرح سر پہ تنا ہو احمری اک شامیاں
جارہا ہے نور حیدر﷜ دشمنوں کے درمیاں
آبروئے اہل گلشن راحت کون و مکاں
سید عالمﷺ کا تھا محبوب و پیارا وہ حسین﷜
حیدر کرّار﷜ کا جو تھا دلارا وہ حسین﷜
فاطمہ زہرا﷝ کا تھا جو ماہ پارا وہ حسین﷜
اور حسن﷜ کے آسمان دل کا تارا وہ حسین﷜
جارہا ہے سر کٹانے آج امت کے لئے
نرغۂ ظلم و ستم میں اس کی راحت کے لئے
گلشنِ اسلام کو جس نے نکھارا وہ حسین﷜
آسمان صدق کا جو تھا منارا وہ حسین﷜
کردیا باطل کو جس نے پارا پارا وہ حسین﷜
گیسوئے ایمان کو جس نے سنوارا وہ حسین﷜
جس نے خون آشام تلواروں کو کچھ سمجھا نہیں
کہہ دیا کہ موت سے شیر خدا﷜ ڈرتا نہیں
بن گیا جو سطوت حیدر﷜ کا مظہر وہ حسین﷜
نغمۂ حق جس نے گایا زیرِخنجر وہ حسین﷜
معرکوں میں مسکراتا تھا جو یکسر وہ حسین﷜
تھا جو لخت خاطر محبوب داور وہ حسین﷜
ختم کرنے جارہا ہے دین کی پژمردگی
گلشنِ اسلام کو بخشے گا تازہ زندگی
سامنے ہے لشکر باطل قطار اندرقطار
چور کرنے شیشۂ ملت کو آئے بدشعار
اس طرف تنہا کھڑا ہے لیث شیر کردگار
رحمت اللعالمیں کے دوش اقدس کا سوار
بڑھ رہا ہے لیکے آگے ذوالفقار حیدری
جس کی جولانی کے آگے مات کھائے برق بھی
جاتے ہی فوج عدد کو کردیا زیر وزبر
ہوگئی بے سود اعداء کی ہر اک تیغ دسپر
اک صدا کانوں سے ٹکرائی محمدﷺ کے پسر
وعدۂ طفلی سے کیا تو ہوگیا ہے بے خبر
سن کے سر کو کردیا خم بارگاہِ ناز میں
کردیا اپنے کو قرباں جلوہ گاہِ ناز میں

تجویزوآراء