پیر محمد ہاشم جان سر ہندی رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: پیر محمد ہاشم جان سرہندی۔لقب: شیخ المشائخ۔سلسلہ نسب اس طرح ہے:پیر محمد ہاشم جان سرہندی بن شیخِ طریقت حضرت خواجہ محمد حسن جان سرہندی بن خواجہ عبد الرحمن بن خواجہ عبدالقیوم بن شاہ فضل اللہ سرہندی بن شاہ غلام نبی۔سلسلہ نسب تیرہویں پشت میں حضرت مجدد الف ثانی سے ملتا ہے۔(علیہم الرحمۃ والرضوان)۔(سندھ کے صوفیاء نقشبند:152)
تاریخِ ولادت: آپ کی ولادت باسعادت ماہ ذیقد1322ھ،مطابق 1904ء کو ٹنڈو سائیں داد ضلع حیدر آباد سندھ میں ہوئی۔
تحصیلِ علم: ابتدائی تعلیم ٹنڈو سائیں داد میں حاصل کی ۔ حفظ قرآن اور مہارت تجوید کیلئے حافظ احمد قادری کی خدمات حاصل کی گئی ۔ تیرہ سال کی عمر میں ’’حفظ قرآن ‘‘ کی سعادت حاصل کی اور حسن قراٗت میں نمایاں مقام پر فائزہوئے ۔ بقول حکیم عبدالعزیز سر ہندی ، اسد ملت حضرت علامہ سید اسد اللہ شاہ فدا ٹکھڑ والے نے ’’حافظ ہاشم ‘‘ سے حفظ قرآن کا مادہ تاریخ ( 1335ھ) نکالا۔ حافظ قرآن ہونے کے بعد عربی فارسی کی مزید تعلیم ٹنڈو سائیں داد میں والد ماجد کی زیر نگرانی حاصل کی ۔ اس کے بعد والد ماجد نے اعلیٰ تعلیم کے لئے اجمیر شریف بھیج دیا جہاں آپ نے علامۃ الہند مولانا معین الدین اجمیری کے ’’دارالعلوم معینیہ عثمانیہ ‘‘ سے درس نظامی کی تحصیل اور سند حاصل کی ۔ موصوف خیر آباد کے علمی خانوادہ کے ’’ارکان اربعہ ‘‘یا ’’اسطوانات اربعہ ‘‘ میں سے رابع تھے۔ امام الہند علامہ فضل حق خیر آبادی قدس سرہ کے شاگرد ارشد و فرزند ار جمند علامہ عبدالحق خیر آبادی اور ان کے شاگرد رشید حکیم الامت علامہ سید برکات احمد ٹونکی اور ان کے فاضل شاگرد علامہ معین الدین اجمیری تھے۔ مذکورہ ’’علماء اربعہ ‘‘ میں سے ہر ایک اپنے اپنے وقت میں علوم عقلیہ و نقلیہ میں ہندوستان کے افق پر ہزاروں علماء کی موجودگی میں بدور بازغہ کی طرح چمک رہا تھا۔حکمت و طب :درس نظامی سے فراغت کے بعد آپ نے مولانا اجمیری کے بھا ئی شفاء الملک حکیم نظام الدین سے فن طب و طریق علاج میں سند حاصل کی۔ (انوار علمائے اہل سنت سندھ: 823)
بیعت وخلافت:اپنے والد محترم حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت تھے اور حضرت محمد یعقوب بھو پالی مجددی سر ہندی قدس سرہ کی صحبت اختیا ر کی اور حضرت قبلہ محمد صادق مجددی سر ہندی کابلی مہاجر مدنی سے سلوک طے کیا ۔ (ایضاً)
سیرت وخصائص: عالم ربانی،عارف اسرار رحمانی،جامع علوم عقلیہ ونقلیہ،پیر ھدیٰ،محسن اہل سنت حضرت علامہ مولانا پیر محمد ہاشم جان سرہندی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ علیہ الرحمہ سرہندی مجددی خاندان کے ایک روشن آفتاب وماہتاب تھے۔اپنےآباؤ اجداد یعنی حضرت عمر بن خطاب اور حضرت امام ربانی کےمحاسن صوری ومعنوی کےآئینہ دار تھے۔صورت ایسی کہ نظراٹھانے کو جی نہ چاہےماور سیرت و صحبت ایسی کہ وہاں سے ہٹنے کو جی نہ چاہے۔علم ومعرفت میں بحرِ ذخار،لیکن تواضع اور خوش خلقی ایسی جیسے ابر نو بہار۔آپ علیہ الرحمہ کو عربی فارسی اردو سندھی اور پشتو پر مہارتِ تامہ حاصل تھی۔
آپ بے حد حسین وجمیل تھے۔چہرہ پرنور اور متبسم ،حافظہ بے مثال،قد مناسب،خوبصورت داڑھی،ہونٹ گلاب کی پتیوں کی طرح گلابی اور نازک،دانت موتی کی لڑیاں،ہونٹوں پر دائمی مسکراہٹ،پان کھائے ہوئے غنچہ دہن سے جب گفتگو فرماتے تو فضا خوشبو سے مہک جاتی،کسی کا دل نہ دکھاتے،وضع داری،صاف گوئی،اور بہت ہی اعلیٰ صفات کے مالک تھے۔منقولات ومعقولات میں یکساں مہارت تھی۔آپ کی تقریر عالمانہ وفا ضلانہ ہوا کرتی تھی ایک بار لاڑکانہ شہر میں سفید مسجد علی گوہر آباد میں سورہ کوثر پر تین گھنٹہ تقریر فرمائی۔ ہمیشہ تبلیغ ووعظ کا فریضہ فی سبیل اللہ ادا کیا۔
تحریک پاکستان کا غلغلہ بلند ہوا تو آپ مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور اپنی تمام تر قوتوں کو مسلم لیگ کے لئے وقف کر دیا۔ کمیونسٹ بلاک اورسوشلزم کے خلاف تحریر و تقریر کے ذریعے مقابلہ کیا اور عوام الناس کو ان کے فریب و مکر سے بچانے کی سعی کی۔ آپ کے متبسم اور پر نور چہرہ دیکھ کر خدایا د آجاتا تھا۔ گوٹھ سائینداد، نارتھ ناظم آباد کراچی اور شابو کلہ ( کوئٹہ ) میں اکثر قیام کرتے تھے اور تینوں مقامات پر کتابوں کا ذخیرہ جمع کرایا تھا جو کہ آپ کے شوق مطالعہ و کتب بنیی کا مظہر ہے۔ لباس ، خوراک اور جائے رہائش امیر ا نہ تھی اور وضع قطع اور نشست و برخاست فقیر انہ تھی ۔ آپ کے وجود میں امیری اور فقیری آپس میں ہم آغوش نظر آتی تھی جو کہ امیری و فقیری کا حسین امتزاج کا درجہ رکھتے تھے۔
امام الانبیاء سیدالمرسلین ﷺ کی ذات گرامی سے بے انتہا عقیدت تھی۔آپ کاعشق کمال کی حدتک پہنچا ہوا تھا۔اکثر وبیشتر درود شریف آپ کے ورد زبان ہوتا تھا۔جب ذات اقدس ﷺ کا نام نامی اسم گرامی زبان پر آتا یا کسی سے سن لیتے تو آپ پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی۔آپ کی تقریر اور وعظ کا اکثر موضوع محبت و عشق مصطفیٰﷺ اور سیرت ِ مبارکہ ہوتا تھا۔رسول ِ اکرم ﷺ کی آپ پر خاص نظرِ کرم تھی۔جب کوئٹہ میں آپ سخت علیل ہوگئے تو سرور عالم ﷺ نے اپنے دیدار سے مشرف فرمایا۔جس سے اس عاشق ِ صادق کو قرار مل گیا،اورطبیعت سنبھل گئی۔آپ کا اکثر وقت علمی ودینی خدمات میں گزرتاتھا۔قیام کوئٹہ کےدوران ہر جمعہ اور ہفتہ کو پولیس لائن اور فوجی چھاؤنی فوجیوں سے خطاب فرماتے تھے۔آپ پولیس اور افواج پاکستان کی اسلامی تربیت لازمی سمجھتے تھے۔تحریکِ خلافت تحریکِ پاکستان میں بھر پور کردار ادا کیا۔نیشلسٹوں،سوشلزم اور نسل وقوم پرستوں کے خلاف سندھ میں آپ نے بہت بڑا جہاد کیا۔
جب سندھ میں جی ایم سید نے لسانیت وعلاقیت کا نعرہ بلند کیا اور یہ کہا کہ ہم پہلےسندھی اور بعد میں مسلمان ہیں۔تو آپ نے اس کی خوب خبر لی اس کے خلاف کتابچے ،مضامین شائع کیے اور اس فتنے کے سدباب کےلئے پورے سندھ کے درورے فرمائے۔ایک مرتبہ آپ سے سوال کیا گیا کہ اس وقت پاکستان مختلف فتنوں میں گھرا ہوا ہے آپ کےنزدیک سب سےبڑا فتنہ کون سا ہے؟تو آپ نے فرمایا یہاں لادینیت سب سے بڑا فتنہ ہے۔اس کی پرورش کرنے والے جی ایم سید اور شیخ ایاز ہیں۔یہ قادیانیت سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔یہ قومیت ولسانیت پر امت کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔(سندھ کے صوفیائے نقشبند:158)
تاریخِ وصال: مولانا پیر محمد ہاشم جان سر ہندی 21/ رمضان المبارک 1395ھ بمطابق 28/ ستمبر 1975ء کو 73 سال کی عمر میں شابو کلہ نزد کوئٹہ میں انتقال کیا۔ آخری آرامگاہ سر ہندیوں کے خاندانی قبرستان مقبرہ شریف خواجہ عبدالرحمن سر ہندی قدس سرہ کوہ گنجہ ( ضلع حیدرآباد سندھ ) کے باہر بر آمدہ میں جنوب کی جانب سے واقع ہے۔
ماخذ ومراجع:انوار علمائے اہل سنت سندھ۔ سندھ کے صوفیائے نقشبند۔اکابر تحریک پاکستان۔
//php } ?>