حضرت علامہ پیر محمد ہاشم جان سر ہندی
حضرت علامہ پیر محمد ہاشم جان سر ہندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
مولانا پیر محمد ہاشم بن شیخ طریقت قاطع نجدیت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی ۱۳۲۲ھ کو ٹنڈو سائینداد ( تحصیل ٹنڈو محمد خان ضلع حیدرآباد ) میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم ٹنڈو سائینداد میں حاصل کی ۔ حفظ قرآن اور مہارت تجوید کیلئے حافظ احمد قادری کی خدمات حاصل کی گئی ۔ تیرا سال کی عمر میں ’’حفظ قرآن ‘‘ کی سعادت حاصل کی اور حسن قراٗت میں نمایاں مقام پر فائزہوئے ۔ بقول حکیم عبدالعزیز سر ہندی ، اسد ملت حضرت علامہ سید اسد اللہ شاہ فدا ٹکھڑ والے نے ’’حافظ ہاشم ‘‘ سے حفظ قرآن کا مادہ تاریخ ( ۱۳۳۵ھ) نکالا۔
(فائق ھلیافردوس ص ۶۸)
حافظ قرآن ہونے کے بعد عربی فارسی کی مزید تعلیم ٹنڈو سائینداد میں والد ماجد کی زیر نگرانی حاصل کی ۔ اس کے بعد والد ماجد نے اعلیٰ تعلیم کے لئے اجمیر شریف ( بھارت ) بھیج دیا جہاں آپ نے علامۃ الہند مولانا معین الدین اجمیری کے ’’دارالعلوم معینیہ عثمانیہ ‘‘ سے درس نظامی کی تحصیل اور سند حاصل کی ۔ ( تذکرہ علمائے سندھ ص ۱۶۹)
موصوف خیر آباد کے علمی خانوادہ کے ’’ارکان اربعہ ‘‘یا ’’اسطوانات اربعہ ‘‘ میں سے رابع تھے۔ امام الہند علامہ فضل حق خیر آبادی قدس سرہ کے شاگرد ارشد و فرزند ار جمند علامہ عبدالحق خیر آبادی اور ان کے شاگرد رشید حکیم الامت علامہ سید برکات احمد ٹونکی اور ان کے فیض شاگرد علامہ معین الدین اجمیری تھے۔ مذکورہ ’’علماء اربعہ ‘‘ میں سے ہر ایک اپنے اپنے وقت میں علوم عقلیہ و نقلیہ میں ہندوستا کے افق پر ہزاروں علماء کی موجودگی میں بدور بازغہ کی طرح چمک رہا تھا۔ علامہ اجمیری کے پیر سر ہندی کے علاوہ بعض نامور تلامذہ کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں :
۱۔ خواجہ قمر الدین سیالوی چستی سیال شریف
۲۔ پروفیسر علامہ منتخب الحق قادری بہادی کراچی
۳۔ مولاناحکیم نصیر الدین ندوی نظامی دواخانہ شاہراہ قائدین کراچی
( علامہ اجمیری کے بھتیجے ہیں )
۴۔ مولانا غلام مرشد سابق خطیب بادشاہی مسجد لاہور
۵۔ مولانا عبدالشاہد خان شروانی مترجم باغی ہندوستان ۔ یہ سبھی حضرات دارالعلوم معینیہ عثمانیہ کے فاضل اور پیر سر ہندی کے استاد بھائی تھے ۔
مولانا ابراہیم جان سر ہندی آپ کے متعلق رقمطراز ہیں :
میرے علم کے مطابق انداز ا تیس سال ( ۳۰) کی عمر میں ( اجمیر شریف سے پڑھ کر آئے تو ) ٹنڈو سائینداد میں ایک پر وقار اور پر شکوہ تقریب منعقد ہوئی تھی ۔ ( کتابچہ علامہ محمد ہاشم جان سر ہندی سندھی ص ۶)
حکمت و طب :
درس نظامی سے فراغت کے بعد آپ نے مولانا اجمیری کے بھا ئی شفاء الملک حکیم نظامی الدین سے فن طب و طریق علاج میں سند حاصل کی۔
بیعت:
اپنے والد محترم حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی سے سلسلہ عالیہ نقشبندیہ مجددیہ میں بیعت تھے اور حضرت محمد یعقوب بھو پالی مجددی سر ہندی قدس سرہ کی صحبت اختیا ر کی اور حضرت قبلہ محمد صادق مجددی سر ہندی کابلی مہاجر مدنی ؒ سے سلوک طے کیا ۔ ( کتابچہ ص ۱۱)
شادی و اولاد:
آپ نے طالب علمی کے زمانہ مین تقریبا ۲۲ سال کی عمر میں ٹنڈو سائینداد میں شادی کی تھی۔ ( کتابچہ ) آپ نے دو شادیاں کی آپ کی پہلی شادی آپ کے والد کی بھانجی یعنی حضرت عبدالقدوس عرف شیرین جان کی دوسری صاحبزادی سے ہوئی ان کے بطن سے تین فرزند پیدا ہوئے( ۱) فضل اللہ (۲) محمد زبیر (۳) محمد عابد ۔ دوسری شادی آپ نے کوئٹہ میں کی جس سے آپ کو ایک صاحبزادہ حامد جان اور ایک صاحبزادی تولد ہوئیں ۔ ( صوفیائے نقشبند ص ۱۶۰)
تصنیف و تالیف :
آپ تقریر و تحریر کے شہسوار تھے، سندھی ، عربی ، فارسی ، اردو اور پشتو زبانوں پر دسترس رکھتے تھے۔
۱۔ العقائد الصحیحہ فی تردید الوھابیہ ۔ اپنے والد صاحب کی عربی کتاب کا اردو ترجمہ کیا۔ طبع اول الفقیہ پرٹنگ پریس امر تسر ہند ۱۳۶۰ھ؍ ۱۹۴۱ء
۲۔ طریق النجات ۔ یہ بھی آپ کے والد گرامی قدر کی تصوف کے موضوع پر عربی تصنیف ہے جس کا آپ نے سلیس اردو ترجمہ کیا۔ اس کتاب کے شیخ حسین حلمی کے زیر اہتمام استنبول ( ترکی) سے ۱۹۷۸ء کے بعد متعدد ایڈیشن شائع ہوئے ہیں ۔
۳۔ رسالۃ التنویر فی بیان مسئلہ التقدیر ۔ یہ بھی والد ماجد کا عربی رسالہ ہے جس کا آپ نے اردو ترجمہ کیا اور طریق النجات کے آخر میں شامل ہے۔
۴۔ اذکار معصومیہ ۔ خواجہ محمد معصوم سر ہندی ؒ کی کتاب کا سندھی میں ترجمہ کیا۔
۵۔ عمدۃ المقامات (تصنیف ؟) پر بزبان فارسی مقدمہ تحریر فرمایا۔ یہ کتاب لاہور سے شائع ہوئی۔
۶۔ معین المنطق ۔ آپ کے استاد محترم علامہ معین الدین اجمیری نے اپنی اسیری کے زمانے میں قطبی پراردو میں شرح لکھی تھی ۔ اس کے کچھ اسباق مولانا نے اپنے شاگرد ہاشم جان کو قیدفرنگ سے لکھ کر بھیجے تھے۔ یہ شرح تصورات کا حصہ ہے جسے ہاشم جان نے کراچی سے ۴۵ سال کے بعد معین المنطق کے نام سے مرتب کر کے غالبا ۱۹۶۵ء میں شائع کیا تھا اور مولانا نے اسے پسند فرمایا تھا۔
۷۔ زیارت فیض بشارت سرور عالم ﷺ ۔ آپ کی یاد گار تصنیف ہے۔
۸۔ جی ایم سید کمیونیسٹ کے باطل نظریات کے خلاف ایک رسالہ تحریر کیا جو کہ سندھی اور اردو میں تقریبا ایک لاکھ کی تعداد میں شائع کیا۔
زیادہ تر پمفلٹوں اور مکتوبات کی صورت میںاپنے خیالات کا اظہار فرماتے رہے جن کو اگر جمع کیا جائے تو ایک بہت بڑا علمی ذخیرہ بن سکتا ہے۔ (اکابر تحریک پاکستان )
عادات و خصائل :
آپ کی تقریر عالمانہ وفا ضلانہ ہوا کرتی تھی ایک بار لاڑکانہ شہر مین سفید مسجد علی گوہر آباد میں سورہ کوثر پر تین گھنٹہ تقریر فرمائی۔ ہمیشہ تبلیغ ووعظ کا فریضہ فی سبیل اللہ ادا کیا۔ تحریک پاکستان کا غلغلہ بلند ہوا تو آپ مسلم لیگمیں شامل ہو گئے اور اپنی تمام تر قوتوں کو مسلم لیگ کے لئے وقف کر دیا۔ کمیونسٹ بلاک اورسوشلزم کے خلاف تحریر و تقریر کے ذریعہ مقابلہ کیا اور عوام الناس کو ان کے فریب و مکر سے بچانے کی سعی کی۔ آپ کے متبسم اور پر نور چہرہ دیکھ کر خدایا د آجاتا تھا، شخصی دجاہت ، بے مثال حافظہ ، وضعداری ، صاف گوئی غرض بہت سی خوبیاں آپ میں بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ گوٹھ سائینداد، نارتھ ناظم آباد کراچی اور شابو کلہ ( کوئٹہ ) میں اکثر قیام کرتے تھے اور تینوں مقامات پر کتابوں کا ذخیرہ جمع کرایا تھا جو کہ آپ کے شوق مطالعہ و کتب بنیی کا مظہر ہے۔
لباس ، خوراک اور جائے رہائش امیر ا نہ تھی اور اضع قطع اور نشست و برخاست فقیر انہ تھی ۔ آپ کے وجود میں امیری اور فقیری آپس میں ہم آغوش نظر آتی تھی جو کہ امیری و فقیری کا حسین امتزاج کا درجہ رکھتے تھے۔
وصال :
مولانا پیر محمد ہاشم جان سر ہندی ۲۱، رمضان المبارک ۱۳۹۵ھ بمطابق ۲۸، ستمبر ۱۹۷۵ء کو ۷۲ سال کی عمر میں شابو کلہ نزد کوئٹہ میں انتقال کیا۔ آخری آرامگاہ سر ہندیوں کے خاندانی قبرستان مقبرہ شریف خواجہ عبدالرحمن سر ہندی قدس سرہ کوہ گنجہ ( ضلع حیدرآباد سندھ ) کے باہر بر آمدہ میں جنوب کی جانب سے واقع ہے۔ مشائخ نقشبندیہ ، اکابر تحریک پاکستان ( محترم محمد صادق قصوری ) اکابر اہل سنت ( علامہ عبدالحکیم شرف قادری ) نے آپ کے مدفون کی جگہ ٹنڈو سائینداد بتائی ہے جو کہ صحیح نہیں ہے۔ آپ کے وصال پر ڈاکٹر غلام مصطفی خان ، حکیم سید اکرام حسین شاہ سیکری چشتی(حیدرآباد ) اور پیر ابراہیم جان سر ہندی نے قطعات کہے ۔
[ماخوذ: اکابر تحریک پاکستان ۔ تذکرہ مشائخ نقشبندیہ ، طریق النجات ، سندھ کے دو مسلک ، تذکرہ علمائے سندھ ، کتابچہ علامہ محمد ہاشم جان سر ہندی مطبوعہ انجمن طلباء اسلام صوبہ سندھ ]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )