حضرت علامہ پیر محمد ہاشم جان سرہندی

حضرت علامہ پیر محمد ہاشم جان سرہندی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

          حضرت مولاناپیر محمدہاشم جان سرہندی ابن حضرت خواجہ محمد حسن جان سر ہندی قدس سرہما،۱۴ذیعقدہ،۱ ؍جنوری(۱۳۲۳ھ؍۱۹۰۶ئ) کوٹنڈ و سائیں داد (سندھ) میں پیدا ہوئے[1]

نوٹ:  حضرت خواجہ عبد اللہ المعروف بہ شاہ آغاز اور بزرگ پیر ہاشم جان نے آپ کا سال ولادت ۱۳۲۲ھ لکھا ہے (دیکھو،مونس الخلصین ص۲۴۲)

آپ کا سلسلۂ نسب امام ربانی م جدد الف ثانی قدس سرہ سے ملتا ہے۔ کتب فارسی والد ماجد سے پڑھنے کے بعد حافظ قاری احمد صادبنیری سے قرآن کریم حفظ کیا۔ختم قرآن کے موقع پر عظیم الشان محفل منعقد ہوئی،ایک شاعر نے مادئہ تاریخ ’’حافظ ہاشم‘‘ (۱۳۳۵ھ) سے نکالا[2] عربی کی تعلیم کا آغاز والد ماجد سے کیا۔ان کے علاوہ مولانا غلام محمد نظامانی اور مولانا شفیع محمدسوڈاروی سے بھی استفادہ کیا۔شرح وقایۃ تک پڑھنے کے بعد مزید تعلیم کے لئے اجمیر شریف مولانا معین الدین اجمیری قدس سرہ کی خدمت میں حاضر ہو کر اکتساب علوم کیا۔اسی اثنا میں ٹونک میں حضرت مولانا حکیم سید برکات احمد ٹونکی (تلمیذمولانا عبد الھق خیر آبادی) اور فرنگی محل میں مولانا عبد الباری فرنگی محلی کی خدمت میں حاضر ہو کر استفادہ کیا۔غرض گیارہ سال بیرون سندھ رہ کر علم و فضل کی دولت سے مالا مال ہوتے رہے،زیادہ تر اجمیر شریف میں مقیم رہے،یہیں مولانا سید امیر علوی اجمیری سے بھی شرف تلمذ اختیار کیا[3] اور حکیم نظام الدین (برادر اور مولانا معین الدین (اجمیری) سے علم طب میں استفادہ کر کے کمال حاصل کیا[4]

          حضرت مولانا پر ہاشم جان سرہندی صورت و سیرت اور علم و فضل میں بے مثال شخصیت تھے،مکرمی پروفیسر محمد مسعود احمد مدظلہ پر نسپل گونمنٹ کالج،مٹھی(سندھ) رقمطراز ہیں:

’’خوبصورت و خوب سیرت،آپ کو دیکھ کر بے ساختہ قرآن پاک کی آیت یاد آتی ہے فتبارک اللہ احسن الخالقین۔۔۔۔ـ لقد خلقانا الاسنان فی احسن تقویم کی تفسیر مشاہدہ کرنی ہو تو آپ کی زیارت کر لیجئے۔

اس میں شک نہیں کہ مولائے ممدوح متجر عالم،باکمال مقرر اور ماہر طبیب ہیں،ان کی تقاریر سے تجر علمی کا اندازہ ہوتا ہے،سندھ کا باشندہ ہوتے ہوئے اردو اتنی صاف اور رواں بولتے ہیں کہ اہل زبان کا گمان ہوتا ہے[5]۔‘‘

          دینی اور ملی تحریکوں سے آپ کو ابتداء ہی سے شغف رہا ہے،زمانۂ طالب علمی میں اجمیر شریف سے ایک اشتہار شائع ہوا جس میں درج تھا کہ فوج اور پولیس کی ملازمت حرام ہے،یہ اشتہار چسپاں کرنے کے جرم میں آپ کے چند ساتھی گرفتار ہوئے،آپ بھی معتوب قرار دئے گئے لیکن آپ کے واپس سندھ آجانے پر معامہ رفع رفع ہو گیا[6]

          تحریک پاکستان کے سلسلے میں آپ کے والد ماجد مولانا محمد حسن جان سرہندی قدس سرہ نے اپنے مریدین و متعلقین کو خطوط لکھے،زبانی طور پر تلقین کی کہ ہر صورت میں مسلم لیگ کی حمایت اور اعانت کی جائے۔آپ بھی ان کے ہمراہ کام کرتے رہے۔قیام پاکستان کے بعد جب مجاہدین کشمیر نے آزادیٔ کشمیر کے لئے جہاد شروع کیا تو آپ نے مریدین کو جہاد میں شریک ہونے پر تیار کیا،ہزاروں مریدین جمع ہو گئے لیکن حکومت پاکستان کی طرف سے اجازت نہ مل سکی۔

          لواری شریف(سندھ) میں عرس کے موقع پر بعض لوگوں نے مشہور کردیا کہ وہاں کے سجادہ نشین جناب احمد زمان نے لواری شریف میں حجر کا سلسلہ شروع کردیا ہے اس فتنہ کے انسداد کے لئے مولانا پیر ہاشم جان سرہندی نے سب سے پہلے مضامین لکھے جوسندھ کے اخبارات میں شائع ہوئے اور بعد میں کتابی صورت میں بھی شائع ہوئے،انہوں نے حکوت مسے مطالبہ کیا کہ اس فتنے پر ہمیشہ کیلئے پابندی عائد کردی جائے[7]۔

          حضرت پیر ہاشم جان سرہندی کے دل میں ملک پاکستان کی سلامتی،اسلام اور مسلمانون کا بے پناہ درد تھا۔وہ دشمنان اسلام کے خلاف شمشیر بے نیام تھے۔ جی ایم سید ابتداء ’’حضرت خواجہ محمد سن جان سرہندی کے حلقۂ ارادت سے وابستہ تھے۔جب ان کے خیالات تبدیل ہو گئے تو ان سے تعلقات ختم کر لئے۔ایک دفعہ پیر ہاشم جان سرہندی مدینہ طیبہ میں روضۂ اقدس کے سامنے تلاوت کر رہے تھے کہ سید عبد الہاوی اور جی ایم سید آپ سے ملنے آگئے۔آپ نے جی ایم سید کے ساتھ مصافحہ کرنے سے انکار کردیا، اور فرایا’’خدا رسو کے خلاف حملوں کی وجہ سے تم سے مجھے نفرت ہے‘‘ یہ کہہ کر قرآن پاک کی تلاوت شروع کردی،بعد زاں اسے پیغام بھیجا کہ آپ سے مجھے ذاتی طور پر کوئی مخاصمت نہیں سوائے اس کے کہ آپ نے اپنی تحریروں سے مسلمانوں کے دلوں کو زخمی کردیا ہے ۔اگر آپ اپنی ان کارگزاریوں سے تائب ہوں اور مجھے تائب ہونے کی چند سطور لکھ کر دیں تاکہ میں یہیں سے سندھ کے اخبارات کو آپ کے تائب ہونے کی خبر بھیجدوں،پھر میں آپ سے خود ملنے کے لئے آجائوں گا۔اس کے جواب میں جی ایم سید نے کہا کہ میں پہلے ہی تائب ہو چکا ہوں[8]

          آپ سے پوچھا گیا کہ اس وقت پاکستان مختلف قسم کے فتنوں میں گھرا ہوا ہے،آپ کے نزدیک ان میں بڑافتنہ کونسا ہے؟تو آپ نے فرمایا:یہاں لاوینیت سب سے بڑا فتنہ ہے،اس کے پرورش کرنے والے شیخ ایاز اور جی ایم سید ہیں،ان لوگوں نے اصول دین پر رکریک حملے کئے ہیں،یہ قادیانیت سے زیادہ خطر ناک ہیں، یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم مسلمان نہیں،سندھی ہیں اور نئی پود کو سندھی کی بنیاد پر منظم کر رہے ہیں،جو بہت ہی خطر ناک ہے[9]

          جون ،جولائی۱۹۷۲ء میں جب کرای اور سندھ میں بعض شر پسند عناصر نے لسانی ہنگامہ کھڑا کر کے مسلمانوں میں اختلاف و امتشار پیدا کردیا تو مولانا پیر ہاشم  جان نے اپنے تمام ذرائع اس فتنہ کی س کوبی کے لئے صرف کردئے،سندھی اور اردو میں لڑیچر شائع کیا،اس سلسلے میں پیر الٰہی بخش،سابق وزیر اعلیٰ سندھ ان کے معین و مددگا تھے۔

          علماء اہل سنت میں سے اعلیٰ حضرت مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی، حضرت مولانا سید محمد محدث کچھوچھوی،صدر الشریعہ  مولانا امجدعلی اعظمی،فقیہ اعظم مولانا محمد شریف(کوٹلی لوہاراں)،حضرت مفتئی اعظم پاکستان مولانا سید ابو البرکات مدطلہ العالی سے برے اچھے تعلقات تھے۔حضرت محدث اعظم کچھوچھوی کی تقریرسے بہت متأثر تھے۔اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کے بارے میں فرمایا:

’’فاضل بریلوی(قدس سرہ) نے عظیم کارنامے انجام دئے ہیں،وہ اس دور کے عظیم علماء میں شامل ہیں۔اگر فاضل بریلوی اپنے دور کے ان فتنوں کا سد باب نہ کرتے اور ان لوگوں کا شدید مقابلہ نہ کرتے تو نہ معلوم آج وہ طوفاتن کہاں پہنچتا؟[10] ۔‘‘

          موسم گرما میں آپ کوئٹہ تشریف لے جاتے تھے،پندرہ سو لہ سال تک وہاں قرآان پاک کا درس دیا جس میں بڑے برے فوجی افسر بھی شریک ہوتے تھے۔

آپ تبلیغ اسلام اور رشد و ہدایت کی مصروفیتا کی بنا پر تصنیف و تالیف کی طرف زیادہ توجہنہ دے سکے تاہم بعض تراجم آپ سے یادگار ہیں:۔

۱۔       ابن سید الناس کی تصنیف ’’قرۃ العیون فی سیرۃ الامین المامون‘‘ کا سندھی ترجمہ(غیر مطبوعہ)

۲۔      مخدوم محمد ہاشم کی تصنیف’’فرائض الاسلام‘‘ کا ترجمہ۔

۳۔      والد ماجد مولانا محمد حسن جان سر ہندی کی تصنیف ’’طریق النجاۃ‘‘ کا اردو ترجمہ۔

          ان کے علاوہ والد ماجد کی متعدد دیگر تصانیف کا ترجمہ۔

          حضرت مولانا پیر ہاشم جان رحمہ اللہ تعالیٰ علماء سندھ اور ان کی تصانیف کے بارے میں وسیع معلومات رکھتے تھے خصوصاً خاندان مجدد یہ کے حالات کے ھافظ تھے آپ کا کتب خانہ بہت بڑا تھا۔انہیں کتابوں سے والہانہ شغف تھا،دور دور سے کتابیں منگواتے،نادر قلمی کتابوں کی مائیکر و فلم یا فوٹوسٹیٹ حاصل کر کے محفوظ کر لیتے، کراچی کے علماء میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے،اپنے خیر آبادی اساتذہ کا بڑی محبت سے ذکر کیا کرتے تھے[11]

          ۲۲؍رمضان المبارک،۲۸ستمبر[12] (۱۳۹۵ھ؍۱۹۷۵ء) کو حضرت پیر ہاشم جان سرہندی رحمۃ اللہ کا کوئٹہ میں وصال ہوا۔ آپ کی آخری آرام گاہ ٹنڈوسائیں داد (سندھ) میں ہے۔

 

[1] احمد میاں برکاتی: حضرت پری ہاشم جان سرہندی سے ایک ملاقات (ترجمان اہلسنت کراچی،اگست ۱۹۷۴ئ)ص ۳۳

[2] عبد اللہ جان،شاہ آغاز مولانا؛ مونس المخلصین،ص۳۔۲۴۲

[3] احمد میاں برکاتی: ترجمان اہل سنت،اگست ۱۹۷۴ئص۳۴۔۳۵

[4] عبد اللہ جان،شاہ آغا مولانا: مونس المخلصین،ص۲۴۳

[5] محمد مسعود احمد،پروفیسر: تذکرہ مظہر مسعود (مدینہ پبلشنگ کمپنی) ص۳۔۴۴۲

[6] احمد میاں برکاتی: ترجمان اہل سنت کراچی اگست ۱۹۷۴ء ص ۳۶

[7] محمد موسیٰ بھٹو۔حافظ: سندھ کے عظیم پیر ہاشم جان سرہندی سے خصوصی ملاقات   (  ہفت روزہ اداکار لاہور،۲۰تا۲۶ جولائی ۱۹۷۵ئ،ص۲۵

[8] ایضاً : ص ۲۵

[9] احمد میاں برکاتی: ترجمان اہل سنت کراچی،اگست ۹۷۴۔ص۳۷

[10] ایضاً: ص۳۵۔۳۶

[11] مکتوب پروفیسر محمد ایوب قادری بنام راقم السطور،مؤرخہ ۲۵مارچ۱۹۷۶ء

[12] محمد صادق قصوری: اکابر تحریک پاکستان،ص۲۲۹

(تذکرہ اکابرِ اہلسنت)

تجویزوآراء