پیر عبدالرحمٰن بھر چونڈوی رحمتہ اللہ علیہ

 

مجاہد اسلام پیر عبدالرحمٰن بن پیر حافظ محمد عبداللہ (ف۔۱۹۲۸ ء)بن بائی خانقاہ پیر محمد صادق (ف۔۱۸۹۱ ء)کی ولادت با سعادت ۱۳۱۰ ھ ء ۱۸۹۲ء میں خانقاہِ قادریہ بھر چونڈی شریف ضلع سکھر (سندھ ) کی روح پر فضا میں ہوئی ۔ان کے چارو طرف صدائے لاالہ کی گونج تھی جو اس درگاہ کا طرہ امتیاز ہے۔سراج الفقہاء مولانا مفتی سراج احمد خانپوری (ف۔ ۱۹۷۵ ء مولانا عبد الکریم آف میانوالی اور دیگر اساتذہ تعلیم حاصل کی ۱۹۲۸ ء میں والد گرامی کی رحلت پر قل خوانی کے موقعہ پر سجادہ نشین ہوئے ۔

تحریک پاکستان میں آپ کی گر انقر ر خدمات کو بھی فارموش نہیں کیا جا سکتا۔ آپ نے مسلم لیگ کی بھر پور اعانت کی اور اور قائداعظم کا عملی طور پر ساتھ دیا ۔کا نگریس سے سخت متنفر تھے ۔ایک واقعہ کا زکر بے جانہ ہوگا کہ سکھر میں کانگرس کا جلسہ ہوا۔سندھ میں ابھی تک مسلم لیگ کا تعارف نہیں ہوا تھا ۔آپ کو جلسے میں مدعو کیا گیا ۔آپ تشریف لیگئے ۔دوپہر کو خصوصی میٹنگ میں پہنچے تو مجلس کا نقشہ یہ تھا کہ مولوی عطا اللہ شاہ بخاری (ف ۔ ۱۹۶۱ء وسط مجلس میں بول رہے تھے اور مولوی حبیب الرحمٰن لد ھیانوی (ف۔ ۱۹۵۶ ء کعبے کی طرف پاؤں داراز کئے لیٹے ہوئے تھے ۔آپ نے جونہی نظر اٹھائی ،ٹھٹکے ،اور مجلس میں بیٹھےہی فرمایا : مولانا اس سمت مسلمانوں کا کعبہ ہے ،اس طرف پاوں دراز کرنا نہ صرف منع بلکہ شقاوت اور محرومی کا بساعث ہے ،،مولوی صاحب کھسیانے ہو کر اٹھے اور کہا آپ جیسے تنگ نظر صوفیو ں اور پیروں نےدین کو تنگ کردیاہے۔آپ تھوڑی دیر بعد مجلس سے اٹھ کر چلے آئے اور فرمایا ،، یہ لوگ جب خدا کے گھر کی بے اد بی سے نہیں رکتےتو حضور سید عالم ﷺ کی بے اد بی سے کب چوکتے ہوں گے ،،۔اس کے بعد زندگی بھر کا نگر یس کے جلسے میں تشریف نہ لے گئے۔ایک دفعہ آپ کے خلیفہ خاص سید محمد مغفور القادری رحمتہ اللہ علیہ (ف۔ ۱۹۷۰ء ) نے اکبر الہ آبادی کا یہ شعر سنایا تو بہت خوش ہوئے۔

کانگریس کے مولوی کی کیا پوچھتے ہو کیا ہے

گاندھی کی پالیسی کا عربی میں ترجمہ ہے

مسلمانوں کی بے حسی اور اسلام سے بینگانگی ہمیشہ آپ کو بے چین رکھتی تھی۔سند ھ میں کانگرس کا زور توڑنے اور مسلمانوں کی تنظیم کیلئے آپ نے سندھ کے درمند اصحاب کی میٹنگ بلا کر،، جماعت احیا ء الاسلا م ،،کی بنیاد رکھی۔دستور کو مستقل قومی حیثیت دیکر اسلامی ریاست کے حصول پر ساری مساعی کا دارومدار رکھا گیا ۔ جماعت کے پروگرام اور تعارف کیلئے دھڑادھڑ لٹر یچر چھاپ دیا گیا۔اسی سلسلے میں سندھی پریس خریدا گیا اور جماعت کا اخبار الجماعتہ کے نام سے مولوی صدرالدین شاہ کی زیر صدارت شکار پور سندھ سے جاری کیا گیا ۔جس میں نہایت حکیمانہ انداز میں مضامین لکھ کر رائے عامہ کو اندرونی طور پر مسلم لیگ کے حق میں ہموار شروع کردیا ،پھر باقاعدہ پروگرام کے تحت جماعتی سطح پر کا نفرنسو ں کے انعقاد اور وفودکے ذریعہ نشر اشاعت کا اہتمام کیا ۔جیکب آباد سندھ میں ایک تاریخی کانفرنس ہوئی جس کی صدائے بازگشت اب بھی جیکب آباد کے گلی کوچوں میں سنی جاتی ہے۔سکھر ، لاڑکانہ اور شکار پور ایسے مرکزی مقامات پر تاریخی جلسے کئے ہزاروں کی تعداد میں پمفلٹ اور ہینڈبل تقسیم کیے ۔آپ کی ان کاوشو اور سیا سی بصیر ت نے سندھ کے عوام کوآپ کی جماعت کا گرید ہ بنا دیا،ابھی تک جماعت کے ریکارڈ میں ایسے پمفلٹ وغیرہ موجود ہیں جو آپ کی حکمت عملی اور سیاسی سوجھ بوجھ کی منہ بولتی تصویر ہیں ۔

اس کے بعد آپ نے سندھ کے پیروں اور سجادہ نشینوں کو اکٹھا کرنے کیلئے حیدرآباد سندھ میں میٹنگ بلائی تاکہ مسلم لیگ کی حمایت کی جا سکے ۔اس اجتماع میں جمیعت المشائخ کے نام سے تنظیم بنائی گئی ۔ان دونوں جماعتو کی پالیسی تمام تر مسلم لیگ کی پالیسی تھی مگر صرف عوام کی نفسیات کا لحا ظ کرتے ہوئے ناموں کی تبدیلی عمل میں لائی گئی تھی۔دونوں جماعتوں کے پلیٹ فارم سے مسلم لیگ کیلئے فضاہموار کرتے رہے۔

۱۹۳۸ء تک صوبہ سندھ میں کانگرس کا زور تھا ۔مسلم لیگ پوری طرح صوبہ کے عوام میں متعارف نہیں ہوتی تھی۔چنانچہ مسلم لیگ کو متعارف اور مستحکم بنانے کیلئے آپ کی دونوں جماعتوں نے خاصا کام کیا۔۱۹۴۳ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس کراچی میں منقعد ہوا ۔جس میں قائدعظم ،نواب بہادر یار جنگ ،نوابزادہ لیاقت علی خان ،مولانا عبدالحامد بد ایونی ،محمد ایوب کھوڑو،حاجی عبداللہ ہارون اور نواب محمد اسمعیل خاں کے علاوہ بہت سے اکابرین ملت شریک ہوئے ۔جماعت احیاء الاسلا م کے صدر کی حیثیت سے آپ کو بھی مدعوکیا گیا۔اس موقہ پر آپ نے اعلان فرمایا کہ :

مسلم لیگ بر صغیر میں مسلمانو ں کی واحد نمایٔندہ جماعت ہےلہذا ہم اپنی تمام قوت اور طاقت اور جماعت احیاء الاسلام کو مسلم لیگ میں مدغم کرتے ہیں اور احیاءالاسلام ٹکٹ پر منتخب ہونے والے پانچ ممبران اسمبلی مسلم لیگ میں شامل ہوتے ہیں ،،

یہ علان آپ نے قائد اعظم کی اس یقین دہانی او ر گفت وشنید کےبعد کیا تھا کہ یہ ہمارا پاکستان ایک صحیح اسلامی ریاست ہوگا جہاں صرف کتاب و سنت کی حکمرانی ہو گی۔

تحریک پاکستان کے دوران ایک موقعہ ایسا بھی آیا کہ انگریز حکومت نے قائد اعظم سے مطالبہ کیا کہ وہ مسلم اکثریت والے صوبوں میں سے کسی اسمبلی میں اپنی اکثریت کا ثبوت دیں ،اس نازک مرحلے پر آپ کے کے روحانی وایمانی جذبہ اور جاہ و جلال نے وہ کام کیا جو تاریخ کے صفحات پرہمیشہ روشن رہیگا ۔آپ نے سندھ اسمبلی کے تمام مسلم ممبران سے ملاقات کی ،ان میں سے کئی آپ کے مرید تھے لیکن ان کی اکثریت کانگرس کے ساتھ تھی ۔آپ نے بڑی مجاہد انہ شان سے ایک ایک ممبر سے کہا کہ وہ اسمبلی کے اجلاس میں تحریک پاکستان کی تائید میں وٹ دے۔چنانچہ انہونے بسرو چشم آپ کا فرمان قبول کیا ۔اسمبلی ہال میں تحریک پاکستان کو مطلوبہ تائید مل گئی ،انگریز اور ہندو ٔں کے ہوش اڑ گئے کیوں کہ انھیں ایسی توقع نہ تھی۔

مسلم لیگ میں شمولیت کے بعد آپ عملی طور پر مسلم لیگ کی کامیابی کے میدان میں نکل آئے ۔آپ نے حیدرآباد کو اپنا مسکن بنایا اور سندھ کے مشائخ خصوصاً سر ہندی مشائخ کے تعاون سے مسلم لیگ کی جڑو ں کو مضبوط کیا۔کا نگرس کے غبار ے سےہوانکل گئی اور ہر طرف مسلم لیگ کے نعرے گونجے لگے ۔حضرت قائد اعظم آپ ان کی مساعی سے بہت خوش ہوئے اور سندھ کی طرف سے بے فکر ہوگئے۔

اپریل ۱۹۴۶ ء میں آل انڈیاسنی کانفرنس بنارس انعقاد پذیر ہوئی جس کا مقصد دو قومی نظر یے اور مطالبہ پاکستان کی حمایت تھا۔آپ ایک سو افراد کا وفد لیکر سندھ کی نمائند گی کے لیے کا نفرنس میں شریک ہوئے خصوصی مٹینگوں اور ضروری مشورو ں میں شرکت فرمائی اور مفید تجاویز پیش کیں ۔ اس موقہ پر حسب زیل قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی۔

۱ ۔ آل انڈیاسنی کانفرنس کا یہ اجلاس مطالبہ پاکستان کی پر زور حمایت کرتا ہے اوراعلان کرتا ہے کہ علماء و مشایخ اہلسنت اسلامی حکومت کے قیام کی تحریر کو کامیاب بنانے کیلئے ہر امکانی قربانی کیلئے تیار ہیں اور اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ ایک ایسی حکومت قائم کریں جو قرآن اور حدیث نبویہ کی روشنی میں فقہی اصولوں کے مطابق ہو۔

۲ ۔ یہ اجلاس تجویز کرتا ہے کہ اسلامی حکومت کے مکمل لائحہ عمل مرتب کرنے کیلئے حسب ذیل حضرات کی ایک کمیٹی بنائی جاتی ہے۔

۱۔ صدر الافاضل مولاناسید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمتہ اللہ علیہ(ف۔ ۱۹۴۸ء)

۲۔صدر الشر یعہ مولانا محمد امجد علی عاظمی رحمتہ اللہ علیہ(ف۔ ۱۹۴۸ء)

۳۔ مبلغ اسلام مولانا شاہ عبدالعلیم صدیقی میر ٹھی رحمتہ اللہ علیہ(ف۔ ۱۹۵۴ ء )

۴۔ مجاہد اسلام پیر عبدالرحمٰن بھر چونڈی شریف رحمتہ اللہ علیہ (سندھ) (ف۔ ۱۹۶۰ء)

۵۔ پیر محمد امین الحسنات، رحمتہ اللہ علیہ مانکی شریف (سرحد)(ف۔ ۱۹۶۰ء)

۶۔مولانا ابو الحسنات سید محمد احمد قادری رحمتہ اللہ علیہ لاہور (ف۔ ۱۹۶۱ء)

۷۔ محدث اعظم ہند سید محمد محدث کھچو چھوی رحمتہ اللہ علیہ(ف۔ ۱۹۶۱ء)

۸۔ فخر اہلسنت مولانا عبدالحامد بدایونی رحمتہ اللہ علیہ(ف۔ ۱۹۷۰ء)

۹۔دیوان سید آل رسول علی خاں اجمیری رحمتہ اللہ علیہ(ف۔۱۹۷۴ء)

۱۰۔الحاج بخشی مصطفیٰ علی خاں میسوری مدر اسی رحمتہ اللہ علیہ(ف۔ ۱۹۷۴ء)

۱۱۔ سید ابو البرکات سید احمد رحمتہ اللہ علیہ نا ظم حزب الا حناف لاہور (ف۔ ۱۹۷۸ ء)

۱۲۔ مفتی اعظم ہند مولانا مصطفیٰ رضاخاں بریلوی رحمتہ اللہ علیہ(ف ۔ ۱۹۸۱ء)

۱۳۔ شیخ الا سلام خواجہ محمد قمر الدین سیالوی رحمتہ اللہ علیہ(ف۔ ۱۹۸۱ء)

۳۔ یہ اجلاس کمیٹی کو اختیار دیتا ہے کہ مزید نمائندوں کا حسب ضرورت و مصلحت اضافہ کرے ،یہ لازم ہوگا کہ اضافہ میں تمام صوبہ جات کے نمائندے لیے جائیں ۔اس کے بعد آپ نے طوفانی دورے کرکے پورے سندھ میں سنی کانفرنس کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی اور مسلم لیگ کی کامیا بی کیلئے سر گرمی سے کام کیا تحریک پاکستان کی اس ساری جدوجہد میں آپ کے صاحبزادے پیر عبدالرحیم شہید (ف۔ ۱۹۷۱ء) اور آپ کے خلیفہ خاص پیر سید مغفور القادری رحمتہ اللہ علیہ (ف۔ ۱۹۷۰ء ) نے بھی آپ کے شانہ بشانہ خدمات انجام دیں ۔قیام پاکستان کے بعد اپنی تمام تر توجہ مریدین کی روحانی تربیت پر ہی صرف کردی ۔اور ۹ ۔جمادی الاول ۱۳۸۰ ھ ۔ ۳۰ اکتوبر ۱۹۲۰ ء بروز اتوار اک بجے دن آپ نے انتقال فرمایا ور بھری چونڈی شریف میں ہی آخر ی آرامگاہ بنی۔

وہ پیر بھر چونڈی عبدالرحمٰن

گئے کہہ کے دنیا کو جب خیر باد

یہ صادق نے بہر اظہار غم

کہا سال رحلت "فضیلت نہاد"

۱۳۸۰

ماخذومراجع:

۱۔ "عبادالرحمٰن ،، ازسید مغور القادری ،لاہور۱۹۶۹ء

۲۔"اکابر تحریک پاکستان جلد اول از محمد صادق قصور طبع اول ۱۹۷۶ء طبع دوم لاہور ۱۹۷۹ء

۳۔ "اولیاے بہاولپور ،، از سید مسعود حسن شہاب دہلوی ،بہاولپور ۱۹۷۶ء۔

۴۔ تذکرہ اولیائے سندھ ،، از مولانا محمد اقبال حسین نعیمی ،کراچی ۱۹۸۷ء۔

تحقیق و تحریر :مُحّمد صادق قصوری

(تحریک پاکستان اور مشائخ عظام)

 

 

 

 

 

 

تجویزوآراء