سراج الفقہاء مولانا سراج احمد خان پوری رحمۃ اللہ علیہ
نام ونسب: اسم گرامی: حضرت مولانا سراج احمد ۔لقب:سراج الفقہاء۔آپ کی علمی وفقہی بصیرت کی بناء پریہ لقب غزالیِ زماں شیخ الحدیث حضرت سید احمد سعید شاہ کاظمینےدیاتھا۔خان پوروطن کی نسبت سے’’خان پوری‘‘ کہلاتےہیں۔سلسلۂ نسب اس طرح ہے:سراج الفقہاء حضرت مولانا سراج احمد خان پوری بن مولانااحمدیاربن مولانامحمدعالم علیہم الرحمۃ والرضوان۔آپکےوالدِگرامی مولانا احمدیارصاحباس علاقےکےجیدعالم دین اور صاحبِ فتویٰ وتقویٰ تھے۔آپ کےجدامجدمولانا محمد عالم حضرت خواجہ غلام فرید(کوٹ مٹھن شریف) کےپیر ومرشد اوربرادرِ بزرگ حضرت خواجہ فخرجہاں چشتیکےہم درس اور پیربھائی تھے۔مولانا محمد عالم نےتمام درسی کتب اپنےہاتھ سےلکھیں تھیں۔اسی طرح سراج الفقہاء کےنانا مولانا امام بخشبھی معاصرعلماء میں ممتاز مقام رکھتےتھے۔یعنی طرفین سےخالص علمی وروحانی ماحول تھا۔(سوانح سراج الفقہاء:7/تذکرہ اکابر اہل سنت:146)
تاریخِ ولادت:آپ کی ولادت باسعادت بروزبدھ 14/ذوالحجہ 1303ھ مطابق11/اگست1886ءکوقصبہ ’’مکھن بیلہ‘‘تحصیل خان پور،ضلع رحیم یارخان،پنجاب،پاکستان میں ہوئی۔
تحصیلِ علم:آپ کاخاندان علمی وروحانی خاندان تھا۔اس لئےآپ کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ابتدائی تعلیم قاعدہ اپنےگاؤں مکھن بیلہ میں شروع کی۔پھر چاچڑاں شریف میں جامعہ فریدیہ (جس کےبانی حضرت خواجہ غلام فرید ہیں)میں ابتدائی کتب سےلےکرمطول تک تمام کتب استاذالعلماء مولانا تاج محمودصاحب اور جامع علوم عقلیہ ونقلیہ حضرت مولانا غلام رسول سےپڑھیں۔فنون عالیہ اور حدیث کی بعض کتب قصبہ مہمندضلع بہاولپور کےمعقولی عالم علامہ امام بخش،سےپڑھیں،اور 1317ھ/1899ء میں تقریباً14سال کی قلیل عمرمیں علوم نقلیہ وعقلیہ سےفارغ ہوئے۔(نورنور چہرے:98)
سرکارِدوعالمﷺکی نظرِعنایت: ابتداء میں آپ ذہنی طورپر کمزورتھے۔پڑھنےمیں دشواری محسوس ہوئی اس سےآپ کےگھر والوں کی تشویش لاحق ہوئی۔آپ کی والدہ محترمہ ایک عابدہ صالحہ خاتون تھیں،ایک رات خواب میں سرورِعالمﷺکی زیارت سےمشرف ہوئیں۔آپﷺنےسراج الفقہاء کےبارےمیں چند دعائیہ کلمات فرمائےاور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ یہ بہت بڑا عالم ِ دین ہوگا۔پھر حنائی رنگ کے چنداوراق عطاء فرمائے،اور فرمایا:’’مولوی احمد یار کودےدینا تاکہ یہ پانی حل کرکےاپنے لڑکےکوپلائے‘‘۔جب آپ بیدارہوئی تواوراق ہاتھ میں نہیں تھے۔کچھ دیر بعد مولانا احمد یار صاحب تشریف لائے،توان کےپاس ایک کتاب تھی جسے کھولاگیا تووہی اوراق اس میں موجود تھے۔والدہ ماجدہ نےپہچان لئے۔چنانچہ وہ اوراق مولانا کوپلائے گئے،تو ان کا اثر عظیم ظاہر ہوا۔(ایضا:98)
سرکاردوعالمﷺ کی نظرِ کرم سےزمانۂ طالب علمی سےہی آپ کوہم درس طلباء پرفوقیت حاصل تھی۔آپ اکثر درسی وغیر درسی کتب مطالعے میں حل کرلیتےتھے۔کتبِ فقہ سے کنزالدقائق سبقاً پڑھی اور باقی کتابیں مطالعےسےحل کرلیں۔اسی طرح ریاضی،زیج،اور علمِ میقات وغیرہ پرمطالعےکی بدولت کمال مہارت حاصل کی۔(ایضا:99)
بیعت وخلافت: آپ دس سال کی عمر میں سلسلہ عالیہ چشتیہ نظامیہ میں فریدالعصر،ملک الشعراء،فردِ وحید حضرت خواجہ غلام فرید(کوٹ مٹھن شریف) کےدستِ حق پرست پربیعت ہوئے،خواجہ صاحب کی برکت سےایمان کی حفاظت کےساتھ ساتھ علماء ِ کرام میں ’’سراج الفقہاء‘‘کے
لقب سےملقب ہوئے۔
سیرت وخصائص: جامع منقول ومعقول،حاویِ اصول وفروع،نازشِ اہل سنت،قامعِ اہل بدعت،قاطعِ نجدیت وقادیانیت وہابیت ودیوبندیت، فقیہ العصر،استاذالعلماء،زبدۃ الفضلاء،قدوۃ الصلحاء،سراج الفقہاء حضرت علامہ مولانا مفتی سراج احمد خان پوری۔آپاپنےوقت کےجیدفقیہ اورنابغۂ روزگار شخصیت کےحامل تھے۔تمام علوم عقلیہ ونقلیہ میں بالعموم اور فن میراث وتوقیت،ریاضی و وصیت میں بالخصوص ایسی مہارت تھی،کہ ان میں اپنی نظیر آپ تھے۔حضرت سراج الفقہاء اپنےوقت میں مرجع العلماء تھے۔دوردراز کےلوگ آپ کی طرف رجوع کرتے۔حتیٰ کہ دارالعلوم دیوبندکےمفتی میراث کےمشکل ترین مسائل کےحل کےلئےآپ سےاستعانت ورابطہ قائم کرتے۔اگردورِ اخیرمیں آپ کوفنِ میراث کاامام کہاجائےتوبےجانہ ہوگا۔(ایضا:105)۔اسی طرح آپ کتبِ فقہ پربڑی گہری نظر رکھتےتھے۔فقہ حنفی کی ضخیم کتب کااول تا آخربنظرِ غائر مطالعہ فرماچکےتھے۔’’سراج اہل القبلہ‘‘علم الفرائض،وصیت،اورمیقات پرضخیم کتاب ہے۔جس کاخلاصہ ’’الزبدۃ السراجیہ فی علم المیقات والمیراث والوصیۃ‘‘ اور’’سراج الفتاویٰ‘‘ آپ کی علمی ثقاہت وفقہی بصیرت بین دلیل ہیں۔آپ کےاکثر فتووں کی بناء پرسابق ریاست بہاول پورمیں عدالتی فیصلے ہوتےرہے۔(سوانح سراج الفقہاء:16)
درس وتدریس: آپ نے نو جوانی کے عالم میں تدریس کی ابتداء کی،پہلےایک عرصہ تک قصبہ ڈیرہ گبولاں(ضلع رحیم یار خاں)میں اورپھراپنے گاؤں مکھن بیلہ میں تشنگان ِعلوم کوسیراب کیا۔بعدازاں چا چڑاں شریف میں اس وقت کے سجادہ نشین حضرت خواجہ فیض فرید کی تعلیم و تربیت آپ کےسپردہوئی جسےآپ نے بطریق احسن انجام دیا ،اورکچھ عرصہ دربار قادریہ بھر چونڈی شریف ( ضلع سکھر ) میں مقیم رہے جہاں مجاہد ِاسلام حضرت مولانا پیر عبد الرحمن کوپڑھاتےرہے۔ مدرسہ انوار العلوم ملتان میں بھی فرائض تدریس انجام دیئے۔آخر میں مدرسہ عربیہ سراج العلوم خان پور میں بحیثیت مدرس اور مفتی عرصۂ دراز تک کام کیا۔آپ نے تقریباً 70سال علوم دینیہ کا درس دیا واور بیشمار مشتاقانِ علم کو فیض یاب کیا۔آپ کےتلامذہ کاحلقہ بہت وسیع ہے۔ماضی قریب کےجیدعلماء ومشائخ آپ کےتلامذہ ہیں۔چند تلامذہ کےنام: حضرت خواجہ فیض فرید،مولانا پیر عبدالرحمن بھرچونڈی،شیخ القرآن حضرت مولانا فیض احمد اویسی،خواجہ پیرمحمد اکرم شاہ جمالی،پیرسید مغفورالقادری،بلبل باغِ مصطفیٰ حضرت علامہ مولانا خورشید احمد فیضیوغیرہ۔(تذکرہ اکابر اہل سنت:147)
اعلیٰ حضرت مجددامت امام احمد رضاخاںسےعقیدت: حضرت سراج الفقہاء فرماتےہیں: کہ دورِ طالب علمی میں یہ بات ہمارے ذہن میں بٹھادی گئی تھی کہ مولانا احمد رضاخان بریلویکی کتابیں پڑھنا ناجائز ہے۔ان کی تصنیفات کوعلم وتحقیق سےکوئی علاقہ نہیں ہوتا۔وہ تو صرف چندمروجہ رسومات وبدعات کےمجوزہیں۔ ان کی علمیت کامدار یہی امورہیں،اور ان کی تصنیفات صرف میلاد قیام،میلاد،فاتحہ،عرس، گیارہویں نذرونیاز اور نداء غیر اللہ وغیرہ امور بدعیہ سے متعلق ہیں۔چنانچہ عام طلباء کی طرح میں بھی ان کےنام سےمتنفر تھا۔میں نےبعض لوگوں سے ان کےتبحر علمی کی باتیں سن رکھیں تھیں جنہیں ہمارے حلقے میں مریدین ومعتقدین کی عقیدت اور غلو سےتعبیر کیا جاتاتھا۔اللہ تعالیٰ کافضل اور اس کےنبی کریمﷺکی نظر عنایت شامل حال تھی،اورحضرت خواجہ غلام فریدکادامن ِ کرم سےوابستگی تھی کہ قدرت کی طرف سےکچھ ایساواقعہ رونما ہوا۔جس نےحضرت سراج الفقہاء جیسی شخصیت کےذہن میں عظیم انقلاب پیداکردیا۔
اس کی تفصیل خود ان کی زبانی سنئے۔فرماتے ہیں: حسن ِاتفاق سے مجھےرسالۂ میراث کی تصنیف کےدوران ایک مسئلے(ذوی الارحام کی صنف رابع کےحکم) میں الجھن پیداہوئی۔میں نے اس کےحل کےلئے دیوبند،سہارن پور،دہلی، اور دیگر علمی مراکزکو خطوط لکھے۔کہیں سےبھی تسلی بخش جواب نہ آیا۔سب نے’’سراجی‘‘پر ہی اکتفاء کیا۔میں یہ سوچ کرکہ اس میں حرج ہی کیا ہےوہ سوال مولانا احمد رضا خان بریلوی کےپاس بھیج دیا۔ایک ہفتے کےاندرمولانا کی طرف سےجواب آگیا۔انہوں نےاس مسئلے کو اس طرح حل کیا کہ تمام کتب کےاختلاف اور شکوک وشبہات رفع ہوگئے۔اس جواب کودیکھنے کےبعد امام احمد رضا خان قادریکےمتعلق میرااندازِفکریکسربدل گیا،اور ان کےمتعلق ذہن میں جمائےہوئےتمام خیالات کےتار وپود بکھرگئے۔ان کےرسائل اور دیگر تصانیف منگواکر پڑھے تومجھےیوں محسوس ہوا کہ میرےسامنے سےغلط عقائد ونظریات کےسارے حجابات آہستہ آہستہ اٹھتےجارہےہیں۔
اسی دور میں احمد پورشرقیہ میں کےایک مشہور غیرمقلد فقیہ مولوی نظام الدین سےمیری گفتگو ہوئی۔یہ مولانا تفقہ میں اپنے ہم عصرعلماء سےممتاز تھے،اور کسی کواپنا ہمسرتصورنہیں کرتےتھے۔فتاویٰ رشیدیہ کےاس فتوےپرگفتگوہوئی کہ حدیث صحیح کےمقابل قول فقہاء پرعمل نہ کرناچاہئے۔اعلیٰ حضرت کےرسالہ’’الفضل الموہبی فی معنیٰ اذا صح الحدیث فہو مذہبی‘‘ کےابتدائی اوراق منازل حدیث کےسنائےتو کہنےلگے:’’یہ سب منازل ِ فہم ِحدیث مولانا کوحاصل تھے۔افسوس کہ میں ان کےزمانے میں رہ کربےخبر وبےفیض رہا‘‘۔پھر فقہ کےچند مسائل کےجوابات رسائل ِ رضویہ سےسنائےتو کہنےلگے۔’’علامہ شامی اور صاحبِ فتح القدیرمولانا کےشاگردِرشیدہیں،یہ تو امام اعظم ثانی معلوم ہوتےہیں‘‘۔سراج الفقہاء فرماتےہیں میں اس کےاس قول کی تصدیق کرتاہوں کہ شامی وغیرہ ان کےشاگرد ہیں۔(سوانح سراج الفقہاء:34)
سراج الفقہاء فرماتے ہیں:اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاںمیرےفتوائےمیراث کےجواب میں مجھےسائل فاضل ہداہ اللہ تعالیٰ کاخطاب دےکردعاکی جومیری ہدایت کاباعث بنی کہ وہابیت جو وہابی استادوں کی شاگردوں سےملی تھی اسی وقت سےجاتی رہی۔الحمد للہ کل الحمد۔جب تک سارےعلوم عقلیہ ونقلیہ میں کمال حاصل نہ ہوفقہ میں ناقص ہے،اور اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان کوہرعلم میں کمال حاصل تھا۔آپ نےجس فن میں قلم اٹھا یااس کےآئمہ کومبہوت کردیا۔اگراعلیٰ حضرت کی علم حدیث میں وسعت علمی دیکھنی ہو تو اعلیٰ حضرتکےرسائل ملاحظہ کریں۔’’حاجزالبحرین الواقی عن جمع الصلوٰتین‘‘نذیر حسین دہلوی امام اہل حدیث کےرد میں ملاحظہ کریں۔جس سےمولوی نذیرحسین طفلِ مکتب نظر آتاہے۔اسی طرح وسعتِ علمی علم معقولات میں فلسفہ ریاضی وغیرہ رسالہ فوز مبین حرکتِ زمین کےرد میں دیکھو کہ نظام بطلیموسی،فیثاغورسی کی ایسی تطبیق دی کہ نیوٹن جوفلسفۂ حال کاامام مانا جاتاہےشاگردنظرآتاہے۔افسوس صدافسوس!کہ مجھےاعلیٰ حضرت کےوصال سےدوسال پہلےان کاپتہ معلوم ہوا۔صرف ایک مسئلہ صنف رابع ذوی الارحام مذکورکوحل کراسکااور باقی صنف ثانی،صنفِ ثالث،ذوالارحام ان سےحل نہ کراسکا۔خلاصہ یہ کہ اعلیٰ حضرتکو اللہ تعالیٰ نے تفقہ فی الدین کی نعمتِ عظمیٰ سےنوازاتھا۔(سوانح سراج الفقہاء:37)
سراج الفقہاء بریلی شریف میں: اعلیٰ حضرت مولانا امام احمد رضاخان قادریکےوصال کےبعدحضرت سراج الفقہاءبریلی شریف تشریف لےگئے۔محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد قادریکےتوسط سےحضرت صدرالشریعہ مولانا محمد امجد علی اعظمیسےملاقات ہوئی۔ان حضرات نےآپ کارسالہ مبارکہ’’الزبدۃ السراجیہ‘‘ دیکھا توآپ کی علمیت وفضیلت سےبہت متاثرہوئے،اور نہایت عزت وتکریم سےپیش آئے۔(ایضا:38)
سراج الفقہاء غزالی ِزماں کی نظر میں: غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمینےمتعدد مرتبہ دوران ِ خطاب فرمایا:’’سراج الفقہاء عظیم نعمتِ الہیہ ہیں‘‘۔حضرت غزالیِ زماں جب کبھی خان پور جانے کااتفاق ہوتا توحضرت سراج الفقہاء کی ملاقات کےلئے ضرور تشریف لےجاتے۔’’سراج الفقہاء‘‘کالقب حضرت غزالیِ زماںکاہی عطاء کیا ہواہے۔(ایضا:38)
شرفِ ملت، محسنِ اہل سنت،عظیم المرتبت حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادریفرماتےہیں: موجودہ دور میں فن ِ میراث کےامام قدوۃ الفضلاء،سراج الفقہاء مولانا سراج احمد خان پوری وہ گنج ہائے گراں مایہ تھے۔جنہیں نہ ستائش سےدل چسپی تھی اور نہ نمائش کی آرزو۔کتنے افسوس کی بات ہےکہ قوم نےان کےعلوم ومعارف کی معتدبہ اشاعت نہ کی اور نہ ہی اہل علم میں ان کی فضیلت علمی کونمایاں کیاگیا،جس کےدر حقیقت وہ مستحق تھے۔قوم کی کوتاہی اور ناعاقبت اندیشی کایہ بین ثبوت ہے۔نہ معلوم علوم ومعارف کےکتنےخزینےاسی طرح زاویہ ٔ گم نامی میں وقت بسر کرکےہماری ظاہر بین نظروں سےایسے اوجھل ہوئے کہ آج ان کی نقشِ حیات کادھندلاسا تصور بھی ہمارےسامنےنہیں ہے۔حقیقت یہ ہےکہ آپ تبحرعلمی کےاعتبارسےنادر روزگار شخصیت ہیں۔آج اگرکوئی شاہ جہاں جیسا علوم دینیہ کاقدردان ہوتا توآفتاب پنجاب مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی کی طرح آپ کوچاندی میں تولتا۔لیکن افسوس کہ وہ خود تواپنی کم آمیزی اور عزلت پسندی کی وجہ سےپردۂ خفامیں رہے،اور زمانےنےان کےبارےمیں ژرف نگاہی سےکام نہ لیا۔(نور نورچہرے:106)
حضرت شرفِ ملت نےاہل سنت کواپنےاکابرین علماء ومشائخ کی قدراور ان کی تحقیقات کومنظر عام پرلانےاور بالخصوص ان کی زندگی میں ہی ان کی قدرکرنااوران کےساتھ معاونت کی کنایۃ ً تنبیہ فرمائی ہے۔ہمارےدور میں یہ بہت بڑا المیہ ہےکہ ایسےلوگوں کی ہم ان کی زندگی میں قدر نہیں کرتےاوربعد از وصال ان کےتمام محاسن یادآجاتےہیں۔قومیں ہمیشہ علمی کارناموں اوردرس گاہوں سےدنیامیں زندہ رہتی ہیں۔کیونکہ یہیں سےقوم کےمعماراورمصلح تیار ہوتےہیں۔قوم کواپنی بقاء کےلئےاپنی ترجیحات پرنظرِ ثانی کرناہوگی۔فقیرتونسویؔ غفرلہ۔
تاریخِ وصال: 5/ذوالقعدہ 1392ھ مطابق 12/دسمبر1972ء،بروزمنگل ،11:00بجےشب واصل باللہ ہوئے۔
ماخذ ومراجع: سوانح سراج الفقہاء۔نور نورچہرے۔تذکرہ اکابر اہل سنت۔