مجاہد اعظم حضرت پیر عبد الرحمن بھر چونڈی شریف قدس سرہ
مجاہد ملت ، ناصر تحریک پاکدتان ، شیخ ثالث حضرت مولانا پیر عبد الرحمن ابن حضرت مولانا حافظ محمد عبد اللہ قدس سرہما۱۳۱۰ھ/۳۔۱۸۹۲ء میں بھر چونڈی شریف (ضلع سکھر ) میں پدا ہوئے ۔ قرآن مجید پرھنے کے بعد سراج العلماء مولانا سراج احمد (خان بیلوی ثم خانپوری )قدس سرہ سے نحو اور فقہ حنفی کی کتابیں پڑھیں اور بقیہ تعلیم مولانا عبد الکریم ساکن میانوانی سے مکمل کی ۔ چونکہ آپ کو بچپن ہی سے ایسا ماحول میسر آئی تھا جو شریعت و معرفت کے ان وار اور زکر و فکر کی برکات سے معمورتھا اور پھر ولی کامل والد ماجد کی کیمیا اثر صحبت سے آپ پوری طرح مستفیض ہوئے تھے اس لئے آپ کے کمالات و درجات کا اندزہ لگانا نظر ظاہر ین کے بس کی بات نہیں ہے ۔ ۱۳۴۶ھ میں والد ماجد کے وسال کے تیسرے روز خاناہی دستور کے مطابق آپ کی دستاربندی کرائی گئی ۔آپ نے مسند سجاد گی پر جلوہ افرو ز ہوکر محیر العقول کا ر نامے انجام دئے جو تاریخ کا روشن ترین باب ہیں ۔
حضرت شیخ ثالث حددرجہ پابند شریعت تھے، نماز با جمات کے ایسے پانبد تھے کہ عمر بھر میں شائد ہی کوئی نماز بغیر جماعت کے پڑھی ہو ، اذان کے دوران گفتگو کرنے کو سخت ظاہری کرو فر سے کوئی سرو کارنہ رکھتے تھے، ان کے ہر کام میں للٰہیت جلوہ گر ہوتی ، ان کی نظر مں دنیا اور اہل دنیا کی کچھ وقعت نہ تھی۔ ایک مرتبہ سردار شیر محمد خاں مرحون نے عرض کیا کہ میں قومی اسمبلی کا امید ورا ہوں ، جیکب آباد میں آپ کے بہت سے مریدین ہیں لہٰذا آپ تشریف لے چلیں اور جماعت کو حکم دیں کہ مجھے کامیاب کرائے ۔ آپ ازراہ کرم تشریف لے گئے۔ بنگلے پر پہنچ کر اس نے تین ہزار روپے لنگر کے مصارف کے لئے پیچ کئے ۔آپ نے ہ پیشکش ٹھکر اوی اور واپس آگئے فرمایا: خان مجھے دام دولت میں پھنسا کر اپنا الو سید ھا کرنا چاہتا ہے ۔
آپ کے خلوص اور ایثار کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ مدرسہ انوار العولم ، متان کے جسلہ میں رونق افروز تھے ، حضرت علامہ شیخ القرآن مولانا محمد عبد الغفور ہزاروی رحمہ اللہ تعالیٰ نے دار العلوم کے لئے چندہ کی اپیل کی ، کوئی سو روپیہ اور کوئی پانچ سو روپیہ دے رہا تھا اور اس کا اعلان کیا جارہا تھا ، دریں اثناء حضرت ممدوح نے ایک روپیہ عنایت فرمایا ، اس کا اعلان بھی کردیا گیا، لوگ تعجب خیز نگاہوں نے آپ کو دیکھ رہے تھے لیکن آ پ اس طرح اطمینان سے تشریف فرما تھے کہ جیسے کوئی بات ہی نہ ہو ، تین دن بعد جب جلسہ ختم ہو ا تو آپن ے حضرت علامہ سید احمد سیعد کاظمی دامت برکاتہم العالیہ سے اجازت چاہی اور خلوت میں مدرسہ کے لئے ایک ہزار روپے کی خطیر رقم عطا فرمای ۔ آج بے نفسی کی اسی مثالیں شاید ہی کہیں دیکھنے میں آتی ہوں ۔
حضرت شیخ ثالث مولانا عبد الرعحمن قدس سرہ کو سروردو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عشق کی حد تک محبت تھی ،۔ جب سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر شریف سنتے تو گویا آنکھوں سے سیلاب امڈ پڑتا ، شیخ اعظم حضرت مولانا محمد صیدق بنی بھر چونڈی شریف کا یہ معمول تھا اور حضرت شیخ ثالث نے بھی اسے جاری رکھا کہ ربیع الاول شرف کا پورا مہینہ عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم منایا کرتے تھے جماعت کے لئے بہترین کھانے کا انتظام فرماتے ، کھانے سے پہلے اور بعد خود تمام لوگوں کے ہاتھ دھلاتے اگر چہ حاضرین کی تعداد ہزاروں تک پہنچ جاتی ۔
حضرت ممدوح ان گنت خوبیوں کے مالک تھے ، اگر ایک طرف آپ کے فیض صحبت سے دلوں کی دنیا نور عرفان سے منور تھی ، ہزاروں افراد حلقۂ ذکر فکر میں شامل ہو کرمنازل سلوک طے کرتے تھے دوسری اطرف اعتقادی فضا کو عقائد باطلہ کے مسموم اثرات سے پاک کرنے کیلئے جید علماء کی جماعت ساتھ لیکر جگہ جگہ کے دور ے کرتے ، وعظ و ارشاد کی محفلیں منعقد فرماتے اور ضرورت پڑنے پر اعلاء کلمۃ الھق کی خاطر مناظروں میں شرکت فرماتے تھے۔
آپ انے دو کے سیاسی حالات سے بھی پوری طرح باخبر تھے اس لئے جب آپ نے دیکھاکہ اراکن اسمبلی ووٹ لینے کے لئے بڑے لمبے چوڑے وعد ے کرتے ہیں لیکن ایوان میں چلے جانے کے بعد سب کچھ پھول جاتے ہیں تو آپ نے صوبۂ سندھ کے باخبر افراد کو جمع کر کے انجمن احیاء الا سلام قائم کی جس کا مقصد قوانین شرعیہ کانفاذ، چوری ، ڈکیتی اور تمام غیر شرعی امور کا انسداد اور ملک و ملت کے خیر خواہ ممبروں کو کامیاب کرانا تھا۔ اتفاق رائے سیآپ کو اس انجمن کا صدر منتخب کیا گیا ، جماعت کی طرف سے ایک اخبار الجماعۃ جاری کیا گیا ، سندھ کے طول و عرض مین جا بجا شاخیں قائم کیں ، طوفانی دورے کئے گئے اور انجمن کے مقاصد سے عوام الناس کو راشناس کرانے کے لئے بھر پور کوشش کی گئی ۔تھوڑے ہی عرصہ میں ہزاروں افراد انجمن کے ممبر بن گئے
یہ وہ دور تھ اجب سند ھ میں کانگر س کا طوطی بول رہا تھا ۔ مسلم لیگ نے ابھی تک اس صوبے میں قدم نہیں جمائے تھے۔ انجمن احیاء الاسلام اور حضرت پیر صاھب کی مساعیٔ جمیلہ کے نتیجے میں کانگرس کا فسول ٹوٹ کر رہ گیا اور پاکستان کی الہانہ محبت لوگوں رگ و پے میں سرایت کر گئی۔ انجمن احیاء الاسلام کی قوت و مقبولیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سندھ اسمبلی کے آٹھ ممبر مسلم لیگ میں شامل ہو گئے جن میں سے پانچ وہ تھے جنہیں حضرت پیر صاحب نے احیاء الاسلام کی طرف سے کامیاب کرایا تھا۔ آپ نے انہیں حکم دیا کہ مسلم لیگ میں شامل ہو جائو کیونکہ مقصد تو دین کی خدمت ، ملک کی اصلاحی اور اسمبلی میں ہند و عنصر کا زور توڑنا ہے لہٰذا کیوں نہ ہم مسلم لیگ کو کامیاب کرائیں ، اس طرح آپ نے تحریک پاکستان کو موثراور مضبوط بنانے کے لئے زبر دست کردار کیا ۔
۲۷ اپریل ۱۹۴۶ء کو صدر الا فاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی اور خطیب عصر مولانا سید محمد محدث کچھو چھوی کی کوششوں سے آل انڈیا سنی کانفرنس منعقد ہوئی جس سے دو قومی ڈیڑھ سورفقاء کی معیت مین شریک ہوئے اور کانفرنس کو کامیاب کرانے میں نمایاں حصہ لیا۔ حق و انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ااپ کے مجاہد نہ کارناموں اور خاص طور پر تحریک پاکستان کے سلسلے میں اا کی مساعئی جمیلہ کو اب زر سے لکھا جائے۔
آپ نے مسجد منزل گاہ سکھر کو ہندئووں کے قبضہ سے واگز ر کرانے کے لئے بھر پور جدو جہد کی اور اس سلسلہ میں قید و بندکی صعوبتوں کی بھی برداشت کیا ، آپ جیل میں کیا گئے کہ وہاں ایک دلبستان معرفت کھل گیا، جرائم پیشہ لوگ آپ کے فیض صحبت سے متقی اور پرہیز گابن گئے ۔ ویسے آ پ کی تبلیغ اسلام اور پرکشش شخصیت کا یہ اثر تھا کہ آپ ی زندگی کا شاید ہی کوئی ایسا دن گزرتا تھا جب کوئی غیر مسلم ااپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر حلقہ بگوش اسلام نہ ہوتا ہو۔
حضرت شیخ ثالث صاحب کشف و کرامت بزرگ تھے ۔ سب سے بڑی کرامت یہ تھی کہ آپ نے اپنی تمام عمر اشاعت اسلام کے لئے وقف کر رکھی تھی ، علم کی بڑی قدر منزلت فرماتے تھے شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور فتاویٰ رضویہ جلد اول اور بہار شریعت کی اشاعت آپ ہی کی تحریک پر کی تھی۔
آخر اسلام کا یہ عظیم مجاہد ، سینت کا بطل جلیل او سلسلۂ عالیہ قادریہ نقشبندیہ کا یہ عظیم مقتدا ۹ جمادی الاولیٰ ، ۳۰ اکتوبر ( ۱۳۸۰ھ/۱۹۶۰ئ) بروز اتوار اپنے کریم کے دربار میں حاضر ہو گیا اور اپنے پیچھے لاکھوں متعقدین کو سو گوار چھوڑ گیا۔ آپ کا مزار پر انوار بھر چونڈی شریف (ضلع سکھر) میں مرجع خلائق ہے[1]
[1] مغفور القادری ، سید مولانا : عبد الرحمن ، ص ۱۳، ۲۰۲ محمد عبد الحکیم شرف قادری : سوانح سراج الفقہاء ، ص ۔۱
(تذکرہ اکابرِاہلسنت)