حضرت سید عبدالوہاب گیلانی بن غوث الاعظم
حضرت سید عبدالوہاب گیلانی بن غوث الاعظم رضی اللہ عنہ
اوصاف جمیلہ
آپ شمس المقربین، سراج العارفین، شیخ الاسلام والمسلمین، فخر المتکلمین، سلطان المشائخ و الاصفیا، قدوۃ العلما، والفضلا، مخزنِ مشاہداتِ ربانی، مَوردِ تجلیاتِ سُبحانی، صاحبِ علومِ ظاہری و باطنی تھے حضرت غوث الثقلین شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے فرزندِ اکبر اور مرید و خلیفہ اعظم و سجادہ نشین تھے۔
نام و لقب
آپ کا اسم گرامی عبد الوہاب، کنیت ابو عبد اللہ، لقبِ شریف سیف الدین اور جمال الاسلام تھا۔ قدوۃ العلماء اور فخر المتکلمین بھی کہے جاتے تھے۔
ولادت
آپ کی ولادتِ با سعادت ماہِ شعبان ۵۲۲ھ پانسو بائیس ہجری۔ [۱] [۱۔ ؟؟] مطابق اگست ۱۱۲۸ء ایک ہزار ایک سو اٹھائیس عیسوی [۱] [۱۔ ؟؟] میں بمقام بغداد شریف ہوئی۔ نواب سید صدیق حسن خاں بھو پالوی رحمۃ اللہ علیہ نے تاج المکلل میں ۵۴۲ھ پانسو بیالیس ہجری [۱] [۱۔ ؟؟] پیدائش لکھی ہے جو صریح غلط ہے۔
جس روز سے آپ نے والدہ کے شکم میں قرار پکڑا اُس روز سے جناب غوثیہ اُس طرف پُشت نہ کرتے تھے۔ [۱] [۱۔ ؟؟]
تحصیل علوم
آپ نے اپنے والد ماجد سے تفقہ کیا اور حدیث سُنی۔ اِس کے بعد ابو غالب احمد بِن علی بن احمد المعروف بہ ابن البَنا رحمۃ اللہ علیہ اور ابو القاسم سعید بن الحسین رحمۃ اللہ علیہ، اور ابو بکر محمد بن الزاغوانی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ سے بھی استماعِ حدیث کیا۔ نیز طلبِ علم کے لیے بلادِ عجم کے دُور دراز شہروں کا سفر کیا اور بڑے بڑے علما سے استفادے کیے اور فاضلِ متجر ہوئے۔ [۱] [۱۔ بہجۃ الاسرار۔ طبقاتِ ابن رجب۔]
سید سعد اللہ الموسوی الرضوی القادری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب بحر السرائر میں آپ کے اساتذہ میں ابی منصور عبد الرحمٰن بن محمد بن الواحد اتفراز رحمۃ اللہ علیہ اور ابی الحسن محمد بن احمد بن حرفا رحمۃ اللہ علیہ اور ابی الفضل محمد بن عمر الارموی رحمۃ اللہ علیہ اور ابی الوقت عبد الاول بن عیسیٰ السبخری رحمۃ اللہ علیہ کے نام بھی تحریر کیے ہیں۔
نواب سید صدیق حسن خاں نے بھی تاج المکلل میں آپ کے اساتذہ میں ابن البنا۔ قزّاز۔ ارموی او رابی الوقت کے نام لکھے ہیں۔
آپ نے اپنے وقت کے جمیع ائمہ حدیث سے حدیث سُنی۔ [۱] [۱۔ شجرۃ الانوار قلمی]
بیعت و خلافت
آپ نے بعمر پندرہ سال (۵۳۷ھ میں) اپنے والد بزرگوار قطب الا فخم حضرت سید شیخ ابو محمد محی الدین عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ بمقام بغداد شریف بیعتِ توبہ کی اور کیفیتِ باطن سے فیضیاب ہوئے۔ اور ترقیِ مدارج کے واسطے متوجہ ہوئے۔ عرصہ چار سال میں قُربِ حضرت واحدیت سے مستفیض ہوگئے اور جمیع مراتبِ مستلزمہ قُرب حاصل کیے اور بعمر انیس ال (۵۴۱ھ میں) بیعتِ امامت و ارشاد سے مشرف ہوکر خرقۂ خلافت سے بہرہ اندوز ہوئے حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے عام مجلس میں آپ کو اپنی کُلاہ پہنا کر اُس پر عمامہ سبز رنگ اپنے ہاتھ سے باندھا۔ اور مثالِ خلافت اہلِ مجلس کو سُنا کر آپ کو خلافتِ کبرٰی سے نوازا۔ [۱] [۱۔ حقیقتِ گلزار صابری ۵۴۔ شرافت]
بیعتِ روحی
آپ کو روحی بیعت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تھی۔ [۱] [۱۔ آئینہ تصوف]
نوشاہی سلسلہ کی بشارت
حضرت سید عمر بخش رسولنگری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب مناقبات نوشاہی میں لکھا ہے کہ حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے آپ کو اُس وقت فرمایا کہ تمہارے سلسلہ فقر میں بارہویں پشت بعد ایک درویش حاجی نوشہ نام ہوگا۔ اُس کے ذریعہ تمہارا فقر دنیا میں بے شمار جاری ہوگا اُس وقت حضرت نوشہ صاحبہ رحمۃ اللہ علیہ کی صورت مبارک آپ کو دکھائی گئی۔ ؎
اونویں صورت ظاہر ہوئی حضرت نوشہ والی |
|
حضرت پیر اونویں فرمایا ایہ ہے قُرب کمالی[۱] |
[۱۔ مناقباتِ نوشاہی خطی ص ۶۲]
تدریس
آپ نے تصیلِ علوم و فنون کے بعد ۵۴۳ھ میں اپنے والد بزرگوار کے سامنے اُن کی نیابت میں مدرسہ سعیدیہ غوثیہ باب الازج میں درس و تدریس کا کام نہایت سرگرمی اور خوبی و جد و جہد کے ساتھ شروع کر دیا تھا۔ [۱] [۱۔ حیاتِ جا ودانی ص ۱۰۹]
اُس وقت آپ کی عمر بیس سال سے زیادہ تھی۔ [۱] [۱۔ تاج المکلل ص ۱۳۷]
وصایائے غوثیہ
کتاب فتوح الغیب میں ہے کہ جب حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ مرض الموت کی حالت میں تھے۔ تو صاحبزادہ شیخ عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے عرض کیا یا سیّدی! کچھ وصیت فرمائیے۔ جس پر میں آپ کے بعد عمل کیا کروں حضرت پیر دستگیر رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا۔ بر خوردار! اول تو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اپنے اوپر لازم جان اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے خوف اور امید نہ رکھ۔ اور اپنی تمام حاجات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردے اور اس کے علاوہ کسی پر بھروسا اور تکیہ نہ کر۔ اور توحید کو مضبوط پکڑ لے جس پر کہ سب کا اتفاق ہے۔ التوحید۔ التوحید۔ التوحید۔ [۱] [۱۔ زبدۃ آلاثار اردو ص ۱۲۶ شرافت]
نیابتِ غوثیہ
جب حضرت غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کا اِس دار فانی سے انتقال ہوا تو آپ ان کے سجادہ ہدایت پر متمکن ہوئے اور بے شمار مخلوقِ خدا کو فیضِ قادریہ سے نوازا۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیا جلد اول ص ۱۱۰]
مواعظ
آپ وعظ گوئی و خوش بیانی و مسائل خلافیہ میں یدِ طولٰے رکھتے تھے۔ دلچسپ اور ظرافت آمیز فِقرے آپ کے زبانزد تھے۔ آپ کا وعظ نہایت مقبول و پُر تاثیر ہوتا تھا۔ [۱] [۱۔ بہجۃ الاسرار]
ظریفانہ کلام
اہلِ بغداد کے ظرفا میں سے آپ بڑے ظریف الطبع تھے۔ وعظ میں آپ کی زبان فصیح اور کلام ملیح تھا۔ آپ کے الفاظ شستہ اور پسند خاطر ہوتے۔ آپ بڑے لطیف نادر الوجود، حاضر جواب اور لطیفہ گو تھے۔ مروّت و سخاوت والے تھے۔
ابو شامہ کہتے ہیں کہ ایک دن مجلسِ وعظ میں کسی نے آپ سے پوچھا کہ آپ اہل بیت کے حق میں کیا کہتے ہیں۔ فرمایا اُنہوں نے مجھے اندع کر دیا آپ نے ازراہِ ظرافت اپنے گھر والوں (اہل بیت) کے متعلق جواب دیا۔
ایک روز کسی نے کہا کہ آپ سچ اور جھوٹ کو کس چیز سے پہچانتے ہیں۔ فرمایا لیموں سے۔ اس سے مطلب آپ کا یہ تھا کہ جھوٹھا خضاب لیموں سے زائل ہوجاتا ہے۔
ابن البزوری نے کہا ہے کہ ایک روز آپ کا وعظ سُن کر کسی شخص نے کہا کہ ہم نے آج تک ایسا کلام کبھی نہیں سُنا۔ تو آپ نے فرمایا کہ بے شک پھر تو یہ ہذیان ہوگا۔ ایسا ہی آپ کے ہاں عجائبات کثیرہ تھے۔ [۱] [۱۔ تاج المکلل ص ۱۳۷]
افتاء
آپ نے حدیث بھی بیان کی ہے اور فتوی بھی دئیےہیں۔ فتویٰ میں آپ کا قلم سخت تھا۔ آپ کی صحبت سے بہت لوگ عالم و عارف ہوئے۔ [۱] [۱۔ قلائد الجواہر۔ شجرۃ الانوار۔ شرافت]
اخلاق و عادات
آپ اعلیٰ درجہ کے فقیہ، محدث، فاضل، زاہد، عابد شیریں کلام۔ مفتی اور واعظ تھے۔ آپ کے برادر ان میں سے کوئی ایسا نہیں تھا جس کو آپ پر ترجیح دی جا سکے۔ آپ نہایت با مروّت، کریم النفس۔ حلیم الطبع، منکسر المزاج، صاف گو، صاحب جود و سخا، ادیبِ کامل اور متین تھے۔ [۱] [۱۔ طبقات ابن رجب]
اعانتِ مظلومین
آپ کو قبولیتِ عامہ حاصل تھی۔ ۵۸۳ھ میں خلیفہ الناصر الدین اللہ عباسی نے مظلوموں کی امداد و معاونت اور ستم رسیدہ ولوگوں کی فریاد رسی پر آپ کو مقرر کیا تھا۔ دیوانِ شاہی سے آپ کے پاس مراسلات آیا کرتے تھے۔ [۱] [۱۔ قلائد الجواہر]
کرامات
آپ سے بکثرت خوارق و کرامات ظاہر ہوتے تھے۔
تصرفاتِ قویہ
حضرت محبوب سبحانی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ میں ایسی نسبتِ روحانی و دیعت رکھی تھی کہ آپ جس طالبِ خدا کو سامنے بٹھا کر توجہ فرماتے تو اُس کا قلب روشن و منور و ذاکر ہوجاتا تھا۔ اور یہ تصرف آپ کے بعد آپ کے سلسلہ میں بھی جاری رہا۔ [۱] [۱۔ آئینہ تصوف ص ۹۹۔ شرافت]
عملیات
برائے فتح الباب
آپ نے الہاماتِ غوثیہ کے بارہ میں فرمایا ہے کہ جو شخص اِس کلام کو جو حضرت حق سبحانہٗ وتعالیٰ اور میرے والد ماجد کے درمیان ہوئی ہے یا تجدیدِ وضو خلوت میں پڑھے اور معنی اس کے لفظًا لفظًا دل میں جماوے تو ضرور چالیس روز تک فتح الباب و کشادِ مہمات ہو۔ لیکن اول فقیروں و مسکینوں کے واسطے طعام مہیا رکھے اور کھِلائے۔ کیونکہ حق تعالیٰ نے حضرت غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو فرمایا ہے کہ اپنے اصحاب کو کہو کہ دعوت فقرا کی غنیمت جانو کہ میں اُن کے پاس ہوں اور وہ میرے پاس ہیں، کھانا کھِلا کر نیم شب یا اخیر شب میں پڑھنا شروع کرے۔ جس قدر ممکن ہو اُسی قدر پڑھے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ کشودِ فتوحِ ظاہر و باطن ہوگا۔ [۱] [۱۔ ارشاد الطالبین شاہ محمد رضا]
برائے رفعِ تکبر
آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص یہ اسم جلالی نماز فجر کے بعد سو (۱۰۰) بار پڑھے اُس کے دل سے تکبر دور ہو جاوے گا۔ اسم جلالی یہ ہے۔ یا متکبر یا لوخائیل یا در دائیل بحق یا متکبر۔ [۱] [۱۔ جواہر الاولیا خطی جوہر دوم۔ شرافت]
فضائل و کمالات
حضرت سید سعد اللہ الموسوی الرضوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ آپ حضرت غوثِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے سب فرزندوں میں بمنزلہ بادشاہ تھے۔ اور سب بھایوں میں سے سرداری اور امارت کا تاج آپ کے سر پر ہی تھا۔
سید سعد اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے عربی عبارت آپ کے فضائل و کمالات میں لکھی ہے جس کا ترجمہ یہاں درج کیا جاتا ہے۔
’’قطب الاولیا، جمال الحق والاسلام، قدوۃ العلماء، فخر المتکلمین، شیخ امام سیف الدین ابو عبد اللہ سید عبد الوہاب ابنِ شیخ الآفاق، قطب الاقطاب غوث الثقلین، سید محی الدین ابو محمد شیخ عبد القادر جیلانی اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہو۔
آپ با خبر فاضلِ جلیل و جمیل، اہل علم و خیر کی تعظیم کرنے والے تھے۔ بڑے عقل مند، متقی اور عزت و فضیلت کے مالک تھے۔ بڑے عارفوں کے شیخ بزرگ واصلوں اور مقربین کے پیشواؤں میں سے تھے۔ واضح کرامات، قابلِ فخر مقامات، شگفتہ اسرار، روشن بصیرت، عظیم حالات، گرانقدر احوال، خرق عادات افعال، سچی باتوں، بلند ہمتوں اور قیمتی رتبوں کے مالک تھے، نورانی اشارات، رُوحانی خوشبوؤں، مخفی اسرار اور پاکیزہ محاضرات کے صاحب تھے، آپ کو معارف میں کمال عروج، حقائق میں بہترین راستہ، بلندیوں میں بہت عالی طریقہ سابقین کے مراتب میں پیشقدمی، اہم منازل کی طرف سبقت، انتہائی حالات میں ثابت قدمی، علومِ شریعت میں ید بیضا (دسترس) نافذ تصرف میں یدِ طولیٰ قدرت میں وسیع سینہ حاصِل تھا، آپ حقائق آیات کو بے نقاب کرنے والے وسیع کشف اور مشاہدات کے معانی کو کھولنے کی زبردست قدرت رکھتے تھے۔ آپ ان لوگوں میں سے ایک تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے وجود کی طرف ظاہر کیا، اور مخلوق پر منکشف فرمادیا، ان کے سینوں میں آپ کی ہیبت اور ان کے دلوں میں آپ کی محبت بھردی، اور آپ کو خواص و عوام کے نزدیک قبولیتِ عامہ عطا فرمائی، آپ کو عالم میں تصرف عطا فرمایا، احکامِ ولایت میں آپ کو قدرت دی، حقائق اشیاء کو آپ کے لیے تبدیل کر دیا۔ عادتوں کو بدل دیا، آپ کی زبان پر غیب کی باتین جاری کیں۔ آپ کے ہاتھوں پر امور عجیب ظاہر کیے، آپ کی زبان پر حکمتیں جاری کیں، اور اس شان کی مٹی ہوئی علامتیں آپ کے ذریعہ زندہ فرمائیں، اور آپ کو قدوۃ السالکین، حجۃ علی الصادقین اور امام ابل طریق کا لقب دیا۔ آپ پہلے بزرگ ہیں جنہوں نے حضرت غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے وصال کے بعد ان کی اولاد میں سے سلسلہ رشد و ہدایت کی بنیاد رکھی، اس طریقہ کو قائم کیا اور سلف کا طریقہ واضح کیا۔ [۱] [۱۔ بحر السرائر خطی۔ شرافت]
اولادِ کرام
آپ کی اہلیہ کا نام تاج النسا تھا۔ بنت محمد بن علی بن طاہر بن یحییٰ بن ابراہیم الدینوری رحمۃ اللہ علیہ۔ ان کے بطن سے اولاد ہوئی۔ [۱] [۱۔ بحر السرائر خطی]
آپ کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ بیٹوں کے نام یہ ہیں۔
۱۔ حضرت شیخ امام سید ابو نصر ابو لمنصور صفی الدین عبد السلام صوفی رحمۃ اللہ علیہ۔
اِن کا ذکر آگے آئے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔
۲۔ سید ابو الفتح ضیاء الدین سلیمان رحمۃ اللہ علیہ۔
بعض کتابوں میں اِن کا نام شہاب الدین سلیمان اور بعض میں سلیمان عبد الملک لکھا ہے۔ یہ ۵۵۲ھ میں پیدا ہوئے۔ واعظ، سخی، جامع علوم ظاہر و باطن شیخ عراق تھے۔ [۱] [۱۔ بہجۃ الاسرار] بڑے فقیہ تھے۔ بہت سے اساتذہ سے حدیث سنی اور بیان کی۔ علم، نیکی اور سخاوت میں بے نظیر تھے۔ [۱] [۱۔ بحر السرائر] بُدھوار۔ نہم جمادی الآخرہ ۶۱۱ھ کو وفات پائی مقبرہ حلبہ میں مدفون ہوئے۔ [۱] [۱۔ بہجۃ الاسرار]
سید ابی البرکات محمد نظر بن عبد الرحیم حسن الحسینی رحمۃ اللہ علیہ کی صاحبزادی اِن کے نکاح میں تھی۔ اُس کے بطن سے ایک فرزند ہوئے جن کا نام شیخ الاصیل ابو سلیمان داؤد تھا۔ جمال الاسلام و الفقہا تھے۔ [۱] [۱۔ بحر السرائر۔ شرافت] اپنے جد امجد سیّد سیف الدین عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث سُنی اور تفقہ کیا۔ حدیث روایت کیا کرتے تھے۔ شریف غرالدین کہا کرتے کہ سید داؤد بن سلیمان رحمۃ اللہ علیہ صلاح و زُہد و حدیث کا گھر ہیں۔ حافظ دُمیاطی نے اِن سے حدیث سنی۔ اٹھارہویں ربیع الاول ۶۴۸ھ کو انتقال کیا، اور اپنے باپ دادا کے پاس دفن ہوئے۔ [۱] [۱۔ قلائد الجواہر بحوالہ تاریخ حافظ محمد بن رافع]
شیخ محمد بن یحییٰ التادنی الحنبلی رحمۃ کتاب قلائد الجوہر میں لکھتے ہیں کہ میں نے معرۃ النعمان تابع حماہ میں شیخ عبد الکریم سے ملاقات کی۔ اُن کا نسب یہ ہے۔ ابنِ عبد الوہاب بن صدقہ بن احمد بن حسن بن داؤد بن احمد بن منصور بن سلیمان بن داؤد بن سلیمان بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ۔
نیز مولا بخش سیلفی تذکرہ سیفیہ میں میر سیف الدین شاہ سجادہ نشین گاندر بل کشمیر کا شجرہ نسب اس طرح لکھتے ہیں۔ ابنِ میر حسن بن اسد اللہ بن عبد اللہ بن مرز ابن عبد الرزاق بن جعفر بن حسن بن محمد بن احمد قاسم بن میرک بن شمس الدین بن ابراہیم بن محمد بن احمد بن کمال الدین بن داوٗد بن ابو الفتح سلیمان بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ۔
سید علی اصغر گیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے شجرۃ الانوار میں لکھا ہے کہ سید ابو الفتح سلیمان عبد الملک کی اولاد میں سے سید احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ۱۱۹۳ھ میں میری ملاقات ہوئی۔
ان کے علاوہ بیگو والہ ضلع سیالکوٹ کے سادات اپنا شجرہ اِس طرح ملاتے ہیں۔ احمد شاہ بن حسن شاہ بن محمد علی شاہ بن وزیر شاہ بن امام شاہ بن سید محمد بن عبد اللطیف بن شاہ مرید بن عبد اللہ بن حاجی شاہ بن نعمت اللہ بن حامد شاہ بن سید بقا بن زندہ پیر بن عبد القادر بن محمود بن نور الدین بن اصغر علی بن علی اکبر بن علی اصغر بن شہاب الدین سلیمان بن عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ۔ [۱] [۱۔ گلزار آدم خطی ص ۲۴ شرافت]
حالانکہ کتب انساب میں شہاب الدین سلیمان بن عبد الوہاب کا کوئی بیٹا علی اصغر نام نہیں پایا جاتا۔
لیکن سید سعد اللہ الموسوی الرضوی رحمۃ اللہ علیہ نے بحر السرائر میں سید داوٗد بن سلیمان کے ذکر میں لکھا ہے کہ وہ نہ اولاد رکھتے تھے نہ احفاد مَن یقول انا من اولادہ او احفادہ فھو کذاب عند اللہ تعالٰی ورسولہٖ صلی اللہ علیہ وسلم۔ یعنی جو شخص اُن کی اولاد پسری یا دُختری ہونے کا دعوٰی کرے وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ علیہ الصلوٰۃ والسلام کے نزدیک جھُوٹا ہے یعنی وہ بے اولاد دنیا سے سِدھارے۔
سید سیف الدین عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ کی بیٹی کا نام ام الحسنات سیّدہ عایشہ تھا۔ ام العفیف بھی کہتے تھے۔ بڑی صالحہ وَلیہ صاحب کرامات تھیں۔ اِن کا نکاح سید مبارک بغدادی رحمۃ اللہ علیہ سے ہوا تھا۔ اِن کا ایک لڑکا شیخ امام عالم فاضل عفیف الدین عفیف تھا۔ جس نے فقہ اپنے نانا سید سیف الدین عبد الوہاب سے پڑھی۔ یہ ثِقہ، پاکباز، فقیہ، عقلمند، اہل علم کو دوست رکھنے والے خواص و عوام میں مقبول، سخاوت کے اوصاف سے موصوف، خوشنویس اور زود نویس تھے۔ [۱] [۱۔ بحر السرائر خطی]
ف
بروایت صحیح و معّبرنو سید سیف الدین عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ کی ایک اہلیہ اور اُن سے یہی اولاد تھی جو دو بیٹے اور ایک بیٹی لکھے جا چکے ہیں مگر بعض تحریروں میں آپ کی دو (۲) اور بیویوں کے نام بھی درج ہیں۔
۱۔ سیدہ نور جنت بنت شاہ فتح اللہ بغدادی رحمۃ اللہ علیہ۔ [۱] [۱۔ باغِ سادات قلمی]
۲۔ سیدہ شام بی بی بنت سید عثمان بن سید عبد اللہ بن سید اسمٰعیل بن سید شمس الدین بغدادی رحمۃ اللہ علیہ۔ [۱] [۱۔ حقیقت گلزار صابری ص ۵۴ شرافت]
متذکرہ بالا دو (۲) بیٹوں کے علاوہ دیگر دس بیٹوں کے نام کتب ذیل سے ظاہر ہوتے ہیں۔
۱۔ سید عبد الصمد متولد ۱۴؍ شوال ۵۵۱ھھ متوفی ۱۳؍ رجب ۶۱۳ھ بقول صاحب آئینہ تصوف یہ صاحب اولاد بھی تھے۔
صحیح یہ ہے کہ یہ آپ کے خلیفہ کا نام ہے۔
۲۔ سید محمد کریم الدین۔ مولف شرف الانساب نے یہ شجرہ نسب ان سے ملایا ہے۔ تاج الدین ساکن شکر کھیرا بن محمد حسین بن عبد القادر بن علی محمد بن تاج الدین بن لطیف محمد بن جمال محمد بن پیر محمد بن عزیز محمد بن نور محمد بن امین الدین بن رُکن الدین بن عبد القادر بن عبد النبی بن امین الدین بن جمال محمد بن حسین صادق بن عزیز محمد بن امان اللہ بن محمد بن ابو طاہر ضیاء الدین محمد ہمت بن محمد ابو عبد اللہ زین الدین محمد عرش بن ابو الحسن محمد قریش بن محمد لعیم اللہ بن محمد امین الدین بن محمد حسن بن محمد کریم الدین بن سید عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ۔ [۱] [۱۔ ؟؟]
۳۔ سید ابو نصر فیض ربی۔ ۴۔ سید علی اکبر
۵۔ سید حسین اصغر [۱] [۱۔ ؟؟]
۶۔ سید محمد حسن ۷۔ سید علی مرتضیٰ
۸۔ سید جمال ۹۔ سید رُکن عالم
۱۰۔ سید حبیب اللہ۔ [۱] [۱۔ ؟؟]
میرے (شرافت کے) نزدیک موخر الذکر دونو بیویاں اور دسوں بیٹے جو متاخرین نے بلا تحقیق اور بلا سند شجروں میں درج کر دئیے ہیں بالکل صحیح نہیں۔ اور کسی معتبر تاریخ و تذکرہ میں اِن کا کوئی ثبوت نہیں۔
تلامذہ کرام
آپ سے اکثر اکابر نے علم و فضل حاصل کیا۔ اور مرتبہ ولایت کو پہنچے۔ منجملہ ان کے
۱۔ شریف ابو جعفر بن ابی القاسِم لبیب بن النفیس بن ابی الکرم یحییٰ الحسنی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ۔
۲۔ شیخ ابو العباس احمد بن عبد الواسع بن امیر کاہ بن شافع الجیلی رحمۃ اللہ علیہ۔
۳۔ سید عفیف الدین عفیف بن سید مبارک بغدادی آپ کے نواسے نے آپ سے فقہ سیکھی۔ [۱] [۱۔ بحر السرائر]
۴۔ سید ابو نصر صالح بن سید عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ آپ کے بھتیجے نے آپ سے حدیث سنی۔
۵۔ سید داوٗد بن سید سلیمان رحمۃ اللہ علیہ آپ کے پوتے نے آپ سے حدیث سنی۔
۶۔ امام ابن خلیل محدث رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے حدیث روایت کی۔
۷۔ علامہ دنیثی محدث رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے حدیث روایت کی۔
۸۔ امام محمد بن یعقوب بن ابی الدُنیا کو آپ نے حدیث کی اجازت دی۔ [۱] [۱۔ قلائد الجواہر]
۹۔ امام ابن القطیعی رحمۃ اللہ علیہ نے آپ سے حدیث سُنی۔ [۱] [۱۔ تاج المکلل ص ۱۳۷۔ شرافت]
صاحب بحر السرائر نے لکھا ہے کہ آپ کے شاگردوں کا سلسلہ ایک لاکھ نفوس سے زیادہ تھا۔
خلفائے عظام
سید سیف الدین عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ کے خلفا بہت تھے۔ چند اسماء گرامی لکھے جاتے ہیں۔
۱۔ حضرت امام شیخ ابو المنصور۔ ابو نصر صفی الدین عبد السلام صوفی رحمۃ اللہ علیہ۔
فرزند اکبر انجناب۔ ان کا ذکر آگے لکھا جائے گا ان شاء اللہ تعالیٰ۔
۲۔ حضرت شیخ سید ابو الفتح ضیاء الدین سلیمان عبد الملک فرزندِ اصغر آنجناب۔
۳۔ سید عبد الصمد رحمۃ اللہ علیہ۔
ان کے سلسلہ میں ایک بزرگ سید علی ترندی گذرے ہیں، وہ مرید سید قمر علی ترندی کے وہ مرید سید عبد الصمد رحمۃ اللہ علیہ کے۔
۴۔ سید ابو نصر صالح عماد الدین بقولے ابو صالح نصر بن سید عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ
برادر زادہ آنجناب رحمۃ اللہ علیہ انہوں نے اپنے والد صاحب اور عم بزرگوار حضرت سید عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ سے حدیث سنی اور تفقہ کیا۔ حافظ ابو العلا حسن الھمدانی رحمۃ اللہ علیہ ابو موسیٰ المدینی رحمۃ اللہ علیہ ابو طاھر احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بھی حدیث کی اجازت لی۔ فیض صحبت اپنے عم بزرگ کے سوا ابی ہاشم عیسیٰ رحمۃ اللہ علیہ ابی شجاع سعید رحمۃ اللہ علیہ ابی احمد الاسود رحمۃ اللہ علیہ ابی العباس احمد رحمۃ اللہ علیہ ابی الحسن عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ ابی عبد اللہ یوسف رحمۃ اللہ علیہ کاتبۃ الشمیدہ بنت ابی نصر الاثری رحمۃ اللہ علیہ فخر النسا خدیجہ بنت احمد النہروانی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی حاصل کیا۔
شیخ الوقت، فقیہ، مناظر، محدث، زاہد، عابد، واعظ تھے۔ خلیفہ الظاہر بامر اللہ نے ان کو قاضی القضاۃ مقرر کر دیا۔ اور ان کے پاس دس ہزار دینار مقروضوں اور مفلسوں کے اخراجات کے واسطے بھیجے۔ نیز اوقافِ عامہ مثلاً مدارس شافعیہ و حنفیہ و جامع السلطان و جامع ابن المطلب وغیرہ کا ناظر بتایا۔ اور مدرسہ نظامیہ بھی انہیں کے متعلق کیا گیا۔ نہایت خلیق کریم النفس، متواضع، منکسر المزاج تھے۔ فروعات ندہبیہ میں اِن کے معلومات وسیع تھے۔ علم فقہ میں کتاب ارشاد المبتدین لکھی۔ یہ شعر انہیں کے ہیں۔
انا فی القبر مفرد و رھین |
|
عازم مفلس علی دیون |
علامہ صرصری رحمۃ اللہ علیہ نے اِن کی تعریف میں ایک قصیدہ لامیہ لکھا ہے جس کا ایک شعر یہ ہے۔ ؎
وفی عصر تاقد کان فی للفقہ قدوۃ |
|
ابو صالح نصر لکل مؤمّل |
ولادت ۱۴؍ ربیع الاول ۵۳۴ھ اور وفات ۷؍ شوال ۶۳۲ھ کو ہوئی۔ بغداد باب الحرب میں مدفون ہوئے۔[۱] [۱۔ قلائد الجواھر]
اِن کی اولاد ممالک عرب، عراق، ہند میں بہت ہے۔ ہماری دیار میں بھی متعدد خاندان اِن کے موجود ہیں۔ اِن میں سے آجکل صاحبزادہ سید امداد علی شاہ صاحب حجرہ منورہ ضلع منٹگمری میں اپنے بزرگوں کے سجادہ نشین ہیں۔ سلمہ اللہ تعالیٰ۔ ابنِ سید عارف علی شاہ (متولد ۱۲۸۸ھ متوفیٰ ؟؟؟ھ) بن سید امیر علی بن سید مدد علی المعروف مدد یا سین مصنف مثنوی مددی بن سید سردار علی شہید [۱] [۱۔ مقدمہ دُرّ العجائب شرافت] (متولد ۱۱۹۵ھ متوفی ۱۲۲۸ھ)
یہ سید مدد علی، سید قطب الدین قطب الانام (متولد ۱۱۸۲ھ متوفی ۶؍ جمادی الاخرٰے ۱۲۵۰ھ) کے بعد سجادہ نشین ہوئے۔ ابن سید صدر الدین شیر خدا (متوفی ۱۱۹۰ھ) بن سید عبد الرزاق (متولد ۱۱۲۴ھ متوفی ۱۱۸۴ھ) بن سید محمد ہاشم (متولد ۱۰۹۹ھ متوفی ۲۱؍ ذیقعد ۱۱۵۸ھ) بن سید نور محمد المعروف نور بھر پور (متوفی ۱۹؍ ذی الحجہ ۱۱۲۷ھ) بن سید علی امیر بالا پیر (متوفی ۲۷؍ جمادی الاخرٰے ۱۱۰۲ھ) بن سید محمد مقیم محکم الدین صاحب حُجرہ (متولد ۱۰۰۸ھ متوفی ۹؍ شوال ۱۰۵۰ھ) بن سید ابو المعالی (بعمر ۲۱ سال انتقال کیا) بن سید محمد نور (متوفی ۹۸۸ھ) بن سید بہاؤ الدین بہاول شیر قلندر (متوفی ۱۸؍ شوال ۹۷۳ھ) بن سید تاج محمود سر خپوش بن سید علاو الدین سید زین العابدین بن سید فتح اللہ بن سید صدر الدین بن سید ظہیر الدین بن سید شمس الدین بن سید عبد المومن بن سید مشتاق بن سید علی بن سید ابو نصر صالح گیسلانی رحمۃ اللہ علیہ۔ [۱] [۱۔ خزینۃ الاصفیاج ۱۔ مقدمہ دُرّ العجائب]
۵۔ سید ابو المحاسن فضل اللہ بن سید عبد الرزاق رحمۃ اللہ علیہ
برادر زادہ آنجناب انہوں نے اپنے والد بزرگوار اور عمّ بزرگ حضرت سید عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر شیوخ سے حدیث سُنی۔ تا تاریوں کے ہاتھ سے صفر ۶۰۶ھ میں شہید ہوئے اور بغداد میں دفن ہوئے۔ [۱] [۱۔ سیرۃ غوثِ اعظم ص ۲۶۴]
اِن کے مریدوں سے شیخ رحمت اللہ قادری رحمۃ اللہ علیہ مشہور بزرگ تھے۔ [۱] [۱۔ گلزار فقرا قلمی]
۶۔ سید شیخ محمد بن سید عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ
بردادر زادہ آنجناب جید عالم، مستقیم الاحوال قائم اللیل، صائم النہار تھے۔ بہت لوگ اِن سے مستفیض ہوئے۔ [۱] [۱۔ سیرۃ غوث اعظم ص ۲۶۷] شاہ محمد حسن صابری رامپوری رحمۃ اللہ علیہ کا سلسلہ بیعت قادریہ طریقہ میں ان کو ملتا ہے وہ مرید مولوی نیاز احمد بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے۔ وہ مرید سید عصمت اللہ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے وہ مرید سید محمد الدین سمنانی رحمۃ اللہ علیہ کے۔ وہ مرید شاہ سوندھا حق نما کے۔ وہ مرید سید شیخ محمد گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے۔ [۱] [۱۔ آئینہ تصوف۔ شرافت]
صاحب آئینہ تصوف نے لکھا ہے کہ اِن میں سے بعض بزرگوں نے طویل عمر پائی ہیں اس لیے تھوڑے واسطوں سے شجرہ موصول ہوا ہے۔
۷۔ سید داوٗد بن سید سلیمان بن سید عبد الوہاب رحمۃ اللہ علیہ نبیرہ آنجناب
اِن کا تذکرہ اولاد کے ضمن میں گذر چکا ہے۔
۸۔ شیخ عنایت اللہ رحمۃ اللہ علیہ محتشمانِ روزگار سے تھے۔
اِن کے سلسلہ فقر میں ایک بزرگ شیخ قادر بخش نام گذرے ہیں وہ مرید شیخ محمد عاقِل کے۔ وہ مرید شیخ محمد عارف کے۔ وہ مرید شاہ نصیر الدین کے۔ وہ مرید شاہ یعقوب کے۔ وہ مرید شاہ شیر محمد کے۔ وہ مرید شیخ عنایت اللہ کے۔
۹۔ شیخ ابو الفرح رحمۃ اللہ علیہ اِن کے مریدوں سے سید اصغر صاحبِ فیض گذرے ہیں۔
۱۰۔ سید محمد با صفا رحمۃ اللہ علیہ اِن کے مرید شاہ حسین صوفی مشہور تھے۔ [۱] [۱۔ بیاض خزینۃ العلوم خطی ص ۱۷۷ بحوالہ سلسلہ عالیہ قادریہ]
۱۱۔ شیخ عبد الواحد صوفی رحمۃ اللہ علیہ ۱۲۔ شیخ سیف الدین رحمۃ اللہ علیہ
۱۳۔ شیخ بہاو الدین رحمۃ اللہ علیہ
۱۴۔ شیخ عبد الرحیم رحمۃ اللہ علیہ۔ اِن کا سلسلہ جاری ہے ایک درویش میاں غلام حسین نام احمد پور شرقیہ میں رہتا ہے۔ اس کا شجرہ بیس (۲۰) واسطوں سے اِن کو ملتا ہے۔
سلسلہ وہابیہ
آپ سے جو سلسلہ فقر چلا اُس کا نام صنفِ فقرا میں وہابیہ یا وہاب شاہی کہا جاتا ہے جو قادریہ سلسلہ کی ایک شاخ ہے۔ [۱] [۱۔ سراج الفقرا ص ۶ شرافت]
تاریخ وفات
حضرت سید سیف الدین عبد الوہاب گیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی وفات بقول صاحب قلائد الجواہر و بحر السرائر و تاج المکلل و مسالک السالکین جلد اول و سیرۃ غوث اعظم شب پنجشنبہ بتاریخ بست پنجم (۲۵) ماہِ شوال المکرم ۵۹۳ پانسو ترانوے ہجری مطابق یازدہم (۱۱) ستمبر ۱۱۹۷ء ایک ہزار ایک سو ستانوے عیسوی میں بعہد خلافت الناصر الدین اللہ احمد بن المستضیٔ خلیفہ سی د چہارم (۳۴) عباسی کے ہوئی۔
مدفن پاک
آپ کا مزار پُر انوار بغداد شریف مقبرہ حلبہ میں ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ
قطعہ تاریخ
از اعلیٰ حضرت مولانا شاہ غلام مصطفٰے نوشاہی دام برکاتہٗ
چو رحلت کرد حضرت عبدِ وہاب |
|
سکونت کرد در فردوسِ اعظم |
منہ
عبدِ وہاب عالم و عارف |
|
رفت در عدن با فزوں شادی |
منہ
زہد و تقویٰ چو شیخِ مابر بود |
|
انتقالِ جناب اشرف بود (۵۹۳) |
منہ
درجناں رفت پیرِ ما خوشحال |
|
صاحب شوق(۵۹۳) بود سیّد سال |
مادۂ تاریخ
ہادی ثانی بود
دیگر
از اسماء الحسنیٰ
باعث ودود |
باعث ھادی |
برّ شافی |
رب شافی |
متعالی طالب |
شکور محیط |
فتّاح عدل |
توّاب مقدم |
رؤف قھار |
رؤف قاھر |
صابر مکرم |
صابر منیر |
|
باعث بدوح |
|
از آیت شریف
اٰتہ اللہ الملک
۵۹۳ھ
(شریف التواریخ)