حضرت میرسید فضل اللہ کالپوی
نام ونسب: اسمِ گرامی:میرسیدفضل اللہ ۔کالپی شریف کی نسبت سے"کالپوی"کہلاتے ہیں۔سلسلہ نسب اسطرح ہے:میرسیدفضل اللہ کالپوی ،بن میرسیداحمد کالپوی ،بن میرسید محمدکالپوی ،بن سید شیخ ابوسعید۔(رحمۃ اللہ علیہم اجمعین)۔آپ کاتعلق "ترمذی سادات"سے ہے۔سب سےپہلے آپ کے جدامجد میر سید محمد کالپوی رحمۃ اللہ علیہ نے کالپی شریف میں فیض عام کیا۔
مقامِ ولادت: آپ رحمۃ اللہ علیہ "کالپی شریف" ضلع جلاؤں،صوبہ اترپردیش(ہندوستان) میں پیداہوئے۔
تحصیلِ علم: آپ رحمۃ اللہ علیہ نے تمام علوم عقلیہ ونقلیہ کی تحصیل وتکمیل اپنے والدِ گرامی سے حاصل کی۔ آپ کاشمار اپنے وقت کےجید علمائے کرام میں ہوتا تھا۔
بیعت وخلافت: آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنے والدِ گرامی شیخ الوقت،ولی کامل، عارف باللہ حضرت میر سید احمد رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت ہوئے،اور انہیں سے خرقہ خلافت حاصل کرکے صاحب ِارشاد ہو ئے۔
سیرت وخصائص: عارف باللہ،واصل الی اللہ ،نور العارفین حضرت میر سیدفضل اللہ کالپوی رحمۃ اللہ علیہ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ زہد و تقویٰ، عبادت و ریاضت،علم وعمل،رشدوہدایت،وعظ ونصیحت میں ممتاز اور مشائخِ عصر میں معزز ومقبول تھے۔اس وقت کے خاص وعام آپ کی ذات کی طرف متوجہ ہوتے تھے،اوراپنے مسائل کاحل پاتےتھے۔یہی وجہ ہے: کہ جب سلطان العاشقین صاحب البرکات حضرت شاہ برکت اللہ مارہروی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت سیدنا شاہ فضل اللہ کالپوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے علم وحکمت و سلوک ومعرفت کا شہرہ سنا توکالپی شریف جانے کا رختِ سفر باندھا ۔ کالپی شریف اس وقت علم وحکمت تہذیب وتمدنِ اسلامی کا قبلہ تھا ۔آپ سفر کی صعوبتیں اٹھا کر نور العارفین حضرت سید شاہ فضل اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگا عالی وقار میں پہنچے تو انہوں نے تین بار فرمایا:"دریا بدریا پیوست" یعنی دریا دریا میں مل گیا۔صرف اسی کلمے ہی سے حضرت سید میر شاہ فضل اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سید شاہ برکت اللہ مارہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو سلوک وتصوف اور دیگر بہت سے مقامات کی سیر کرادی ۔حالانکہ حضرت صاحب البرکات علیہ الرحمہ سلاسلِ خمسہ میں مجاز،اور اپنے والدِ گرامی کے تربیت یافتہ تھے۔ اس واقعہ سے حضرت شاہ فضل اللہ علیہ الرحمہ کے فضل وشان کااندازاہ لگایا جاسکتا ہے۔
وصال: آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا وصال مبارک،بروز جمعرات شام کے وقت 14/ذوالقعدہ 1111ھ،بمطابق 2/مئی 1700ء،میں ہوا۔مزارمبارک کالپی شہر میں زیارت گا ہِ خلائق ہے۔
ماخذومراجع: شرح شجرہ قادریہ رضویہ عطاریہ۔
مجلس شعبہ ضیائی دارالتحقیق۔
//php } ?>