برکت
اللہ عشقؔی مارہروی، صاحب البرکات سیّد شاہ
اسمِ
گرامی: برکت
اللہ۔
القاب:
صاحب البرکات، سلطان العاشقین۔
تخلص: عشقی
نسب:
صاحب البرکات سلطان العاشقین حضرت سیّد
شاہ برکت اللہ عشقؔی قادری مارہروی نسباً سیّد ہیں۔ سلسلۂ نسب حسبِ ذیل ہے:
حضرت
شاہ برکت اللہ مارہروی بن سیّد اویس بن سیّد عبدالجلیل بن سیّد عبدالواحد بلگرامی بن سیّد ابراہیم بن سیّد
قطب الدین ۔الیٰ آخرہ (رحمۃ
اللہ عنہم اجمعین)۔
آپ
کاسلسلۂ نسب چندواسطوں سے حضرت امام زین العابدین تک پہنچتاہے۔
ولادت:
حضرت
سیّد شاہ برکت اللہ ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ولادت باسعادت 26؍
جمادی الثانی 1070ھ مطابق مارچ 1660ء کو
بلگرام (انڈیا)میں ہوئی۔
تحصیلِ
علم:
آپ
نے اپنے والدِ ماجد حضرت سیّد شاہ اویس کی نگرانی میں تفسیر، حدیث، اورعلم
الحدیث، فقہ اور اصول الفقہ جیسے علوم سیکھے،اور وقت کے جیّدعلما میں شمارہونےلگے۔
بیعت
وخلافت:
آپ
کے والد ِماجد نے جملہ سلاسل کی اجازت و خلافت مرحمت فرما کر سلاسل خمسہ:
قادِریہ، چشتیہ، نقشبندیہ ، سہروردیہ، مداریہ میں بیعت لینے کی بھی اجازت عطا
فرمائی؛ پھر حضرت شاہ فضل اللہ کالپوی کی خدمت میں حاضرہوئے اور خلافت سے
سرفرازکیےگئے۔
سیرت
وخصائص:
سلطان
العاشقین، برہان الواصلین، حجۃ الکاملین، دلیل المتوکلین، رئیس الاتقیاء، شیخ
الاصفیاء، جامع السلاسل، صاحب البرکات حضرت شاہ برکت اللہ مارہروی۔ آپ کی ذات
بالخصوص پاک وہند میں محتاجِ تعارف نہیں۔ آپ سلسلۂ عالیہ قادریہ کے
تینتیسویں امام اور شیخ ِ کامل تھے۔آپ کی ذات ستودہ صفات شریعت
وطریقت وحقیقت کا مجمع البحرین تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ آپ تمام سلاسلِ طریقت کے جامع تھے،اور تمام میں اجازت و خلافت،اورادووظائف کی
مکمل اجازت حاصل تھی۔ جب آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نورالعارفین حضرت سیّد شاہ
فضل اللہ کالپوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے علم وحکمت و سلوک ومعرفت کا شہرہ
سنا توکالپی شریف جانے کا رختِ سفر باندھا۔ کالپی شریف اس وقت علم وحکمت وتہذیب
وتمدنِ اسلامی کا قبلہ تھا ۔آپ سفر کی صعوبتیں اُٹھا کر نور العارفین حضرت سیّد شاہ
فضل اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہِ عالی وقار میں پہنچے تو انہوں نے تین بار فرمایا:
’’دریا بدریا پیوست‘‘ یعنی دریا دریا میں مل گیا۔
صرف
اِسی کلمے ہی سے حضرت سیّد میر شاہ فضل اللہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے سیّد شاہ
برکت اللہ مارہروی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو سلوک وتصوف اور دیگر بہت سے
مقامات کی سیر کرا دی ۔ پانچوں سلاسلِ طریقت
کی اجازت ہونے کے باوجود حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے
عقیدت کی بنا پر سلسلۂ عالیہ قادِریہ میں بیعت فرماتے۔آپ نے 26
سال تک روزہ رکھا وہ سارا دن روزہ رکھتے اور افطار کے وقت صرف ایک کھجور کھاتے۔
راتوں کو جاگ کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے۔ آپ فجر کی نماز کے بعد سے لے کر
نمازِ اشراق تک وظائف میں مشغول رہتے۔ نمازِ چاشت کے وقت مدرسہ جایا کرتے
اور وہاں موجود طلبہ اور عقیدت مندوں کو علم سے سیراب فرماتے۔ آپ کا ایک معمول یہ
بھی تھا کہ نمازِ ظہر کے بعد قرآنِ پاک کی تلاوت کا آغاز کرتے
اور عصر کی اذان سن کر تلاوت روک دیتے۔ عصر سے مغرب کے دوران سالکینِ طریقت کی روحانی پیاس بجھاتے، اور ان کی مشکلات کوحل فرماتے۔
وصال:
آپ کاوصال 10؍محرم
الحرام 1142ھ،مطابق اگست1729ء کو ہوا۔
آپ کامزارمارہرہ مطہرہ(ہندوستان) میں مرجعِ خلائق ہے۔