حضرت با یزید بسطامی
حضرت با یزید بسطامی رحمۃ اللہ علیہ
آپ پہلے طبقہ والوں میں ہیں آپکا نام طیفور بن عیسیٰ بن آدم بن سروشان ہے۔آپکا دادا بت پرست مذہب کا تھا "پھر مسلمان ہوگئے تھے"آپ خضرویہ ابو حفص یحی ابن معاذ کو ہ عصر ہیں اور شفیق بلخی کوآپ نے دیکھا ہے ۔آپکی وفات ۲۶۱ ہجری میں ہوئی ہے ۔بعض نے ۲۳۴ ہجری میں بھی کہا لیکن اول صحیح تر ہے ۔آپکا استاذ ایک کردی تھا آپ نے وصیت کی تھی کہ میری قبر استاذ سے بہت نیچی کرنا اسمیں استاذ کی عزت کا لحاظ تھا ۔آپ اصحاب رائے و اجتھاد تھے لیکن چونکہ آپ ولی بن گئے اس لیے مذہب اسمیں ظاہر نہ ہوا ۔ شیخ الاسلا م کہتے ہیں کہ بایزید پر بہت سا جھوٹ لوگوں نے لگایا ہے منجملہ انکے یہ ہیں کہ آپ نے یہ کہا ہے کہ میں اوپر گیا اور عرش پر جاکر خیمہ گاڑا ۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ یہ بات شریعت میں کفر ہے اور حقیقت میں دوئی ہے۔حقیقت درست کرتا ہے تو اپنے آپ کو دیکھنے سے کہ حقیقت کیا ہے ۔یہ ہے کہ اپنے آپ س چھوٹ جانا حقیقت ایک بنا ہے خود درست کرنا اور اپنا برابر میں ذکر کرنا کفر ہر تو توحید کو دوئی سے درست کرتا ہے اور وہ پہنچے سے چاہیے نہ آگے بڑھنے سے ۔حصری کہتے ہیں کہ اگر میں عرش کو دیکھوں تو کافر ہوجاؤں ۔ جنیدؒ برقرار تھے اس لیے انکو شطح (بطاہر خلاف شرع باتیں کرنا )کی حالت نہ تھی ۔امر و ہی کو وہ بڑا سمجھتے تھے اور انکے کام نے اصل اور جڑھ حاصل کی انکو لوگوں نے قبول کرلیااور ان سے لوگوں نے کہا کہ" آپ کا وطن کہاں ہے؟" کہا عرش کے نیچے۔یعنی میری ہمت کی انتہا اور میری نظر کی حد اور میری جان کا آرام اور میرے کام کا انجام یہ ہے کہ اللہ تعالی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ تو غریب مسافر ہے اور میں تیرا وطن ہوں کہتے ہیں کہ جب با یزید نماز پڑھتے تو انکے سینے کی ہڈیوں سے آواز نکلتی تھی جس کو لوگ سن لیتے خدا کی ہیبت اور شریعت کی تعلیم کی وجہ سے ۔بایزید نے مرگ کے دروازے یعنی مرگ کے وقت یہ کہا "الہی ما ذکرتک الا عن غفلۃ وما خدمتک الا عن فترۃ "یعنی خدایا میں نے تجھ کو یاد نہ کیا مگر غفلت سے اور میں نے تیری خدمت سوا نقصان کے نہیں کی اس کے بعد ان کا انتقال ہو گیا ۔ابو موسیٰ آپ کے شاگرد کہتے ہیں کہ بایزید ؒکہتے تھے کہ میں نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا اور کہا کہ اے الہی تمہارے پاس پہنچ نے کا راستہ کیونکر ہے کہا کہ جب تو اپنے سے چھوٹ گیا تو مجھ تک پہنچ گیا ۔شیخ الاسلام کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تک پہنچنے کا راستہ تو آسان ہے مگر اس کے پا لینے کا راستہ بہت مشکل ہے۔لوگوں نے بایزید علیہ الرحمۃ کو ان کے انتقال کے بعد دیکھا اور پوچھا کہ "آپکا کیا حال ہے؟"آپ نے جواب دیا کہ مجھ کو پوچھا گیا کہ اے بوڑھے تم کیا کچھ لائے ہو میں نے جواب دیا کہ جو درویش بادشاہ کی بارگاہ میں حاضر ہو اس سے یہ سوال نہیں کرتے بلکہ پوچھتے ہیں کہ کیا چاہتے ہو ۔کہ نیشا پور میں ایک بڑھیا تھی کہ جس کا نام عرافیہ تھا دروازوں پر سوال کرتی پھرتی جب وہ فوت ہو گئی تو لوگوں نے اسکو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ تیرا کیا حال ہے کہا کہ مجھ کو کہا کہ کیا لائی ہے میں نے کہا افسوس۔تمام عمر مجھ کو لوگ یہ کہتے رہے کہ تجھ کو خدا دے ۔اب کہتے ہیں کہ کیا لائی ہے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ یہ سچ کہتی ہے اسکو چھوڑ دو۔
(نفحاتُ الاُنس)