سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی

سلطان العارفین حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ

آپ کی ولادت  باسعادت ۱۳۶ھ میں بُسطام شہر میں ہوئی۔ آپ کے دادا پہلے مجوسی (آتش پرست) تھے، بعد میں مسلمان ہوگئے۔ آپ کے والد ماجد عیسیٰ، بسطام شہر کے جلیل القدر بزرگوں میں شمار ہوتے تھے۔ آپ کی والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ جس وقت بایزید میرے پیٹ میں تھے اُس وقت اگر کوئی مشتبہ غدا پیٹ میں چلی جاتی تو اس قدر بے کلی اور بے چینی ہوتی کہ مجھے حلق میں انگلی ڈال کر وہ غذا نکالنا پڑتی۔ آپ کے دو بھائی اور بھی تھے جن کے نام آدم اور علی تھے۔ وہ دونوں بھی زہد و عبادت میں بے مثال تھے مگر آپ اُن دونوں سے بدرجہا بڑھ چڑھ کر تھے۔ آپ کی باطنی تربیت روحانی طور پر حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے کیونکہ آپ کی پیدائش اُن کی رحلت کے بعد ہوئی ہے۔

بچپن میں جب آپ مکتب میں زیر تعلیم تھے۔ سورۂ لقمان کی اس آیت پر پہنچے اَنِ شْکُرْلِیْ وَلِوَالِدَیْکَ۔ یعنی ’’میرا شکر اور اپنے ماں باپ کا‘‘۔ تو استاد گرامی سے رخصت لے کر گھر آئے اور والدہ ماجدہ سے عرض ک یا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’شکر کر میرا اور اپنے والدین کا‘‘۔ لیکن میرے لیے دو گھروں سے نباہ مشکل ہے لہٰذا یا تو آپ مجھے خدا تعالیٰ سے مانگ لیں تاکہ آپ ہی کا ہو رہوں یا پھر مجھے خدا تعالیٰ ہی کو سونپ دیجیے کہ اسی کا ہو رہوں۔ والدہ ماجدہ نے ارشاد کیا کہ میں نے تجھے اپنا حق بخش دیا اور راہِ حق میں چھوڑ دیا۔ یہ سن کر آپ بسطام سے نکلے اور تیس سال تک شام کے جنگلوں، صحراؤں اور بیابانوں میں ریاضت و مجاہدہ کرتے رہے۔ تقریباً ایک سو سترہ علماء و مشائخ سے فیوض و برکات حاصل کیے جن میں حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سرِ فہرست ہیں۔

کسی نے آپ سے پوچھا کہ سخت سے سخت مجاہدہ کون سا ہے جو آپ نے راہِ خدا میں کیا ہے ارشاد کیا کہ بیان کرنا ناممکن ہے۔ اُس شخص نے کہا کہ آسان سے آسان تکلیف ہی بیان فرمادیجیے جو آپ کے نفس نے اٹھائی ہے، فرمایا: ہاں یہ سن لو، ایک دفعہ میں نے اپنے نفس کو کسی طاعت کی طرف بلایا تو اس نے میرا کہا نہ مانا، اس پر میں نے اُسے ایک سال  پیاسا رکھا۔

ایک دفعہ آپ حج کے لیے روانہ ہوئے تو ہر چند قدم پر جا نماز بچھاکر دو رکعت نماز پڑھتے یہاں تک کہ بارہ سال بعد مکہ مکرمہ پہنچے، فرماتے تھے کہ یہ دنیا کے بادشاہوں کا دربار نہیں کہ یکبارگی وہاں پہنچ  جائیں اُس دفعہ حج سے فارغ ہوکر واپس آگئے اور مدینہ منورہ میں زیارتِ روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حاضر نہ ہوئے، فرمایا کہ زیارتِ روضۂ مقدسہ کو حج کے تابع بنانا خلافِ ادب ہے اگلے سال روضہ مقدسہ کی زیارت کے لیے علیحدہ احرام باندھا۔ راستے میں آپ ایک شہر میں داخل ہوئے تو لوگ آپ کے گرد اکٹھے ہوگئے، جب شہر سے نکلے تو ایک ہجوم آپ کے پیچھے ہولیا آپ نے یہ منظر دیکھ کر پوچھا کہ یہ لوگ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟ جواب ملا کہ  یہ سب لوگ اب آپ کے ساتھ ہی رہیں گے، آپ نے ان لوگوں کو اپنے سے دور کرنے کے لیے نماز فجر کے بعد ان کی طرف متوجہ ہوکر یہ آیت پڑھی اِنّی انا اللہ لا الہ الا انا فاعبدون (بے شک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم میری عبادت کرو) یہ سن کر لوگوں نے کہا کہ یہ تو دیوانہ ہے اور سب چھوڑ کر چلے گئے۔

جب آپ نماز پڑھتے تواللہ تعالیٰ کے خوف اور شریعت مطہرہ کی تعظیم کے سبب آپ کے سینہ کی ہڈیوں سے چراچراہٹ کی آواز نکلتی جو لوگوں کو سنائی دیتی۔ ایک روز آپ کے ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو امام نے آپ سے پوچھا، اے شیخ! آپ کوئی کام نہیں کرتے اور نہ ہی کسی کے معاملے دستِ سوال دراز کرتے ہیں، آپ کھاتے کہاں سے ہیں؟ آپ نے فرمایا! ٹھہرو، میں نماز کا اعادہ کرلوں کیونکہ جو شخص اپنے روزی دینے والے کو نہیں پہچانتا اُس کے پیچھے نماز جائز نہیں   ؎

آنکس کہ نہ بیند در نماز جمالِ دوست

 

فتویٰ ہمی دہم کہ نمازش قضا کند

ابوعلی جوزجانی رحمۃ اللہ علیہ سے اُن الفاظ کی نسبت سوال کیا گیا جو حضرت بایزید رحمۃ اللہ علیہ سے لوگوں کو اپنے سے دور کرنے کے لیے منقول ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم بایزید کے حال کو تسلیم کرتے ہیں۔ شاید وہ الفاظ اُن سے غلبۂ حال یا حالتِ سُکر میں صادر ہوئے ہیں۔ جو شخص بایزید کا مقام حاصل کرنا چاہے اُسے بایزید کی طرح مجاہدۂ نفس کرنا چاہیے تاکہ وہ بایزید کے کلام کو سمجھ سکے۔

آپ فرماتے ہیں کہ جس کام کو میں مؤخر سمجھتا رہا  وہ سب سے مقدم نکلا اور وہ میری والدہ ماجدہ کی رضا تھی۔ میں جو کچھ ریاضات و مجاہدات اور مسافرت میں ڈھونڈتا رہا وہ اسی میں پایا کیونکہ جب میں سفر سے واپسی پر اپنے مکان کے دروازے پر پہنچا اور دروازے سے کان لگاکر سنا تو والدہ ماجدہ وضو کرتے ہوئے یہ ارشاد فرما رہی تھیں۔ ’’یا اللہ! میرے مسافر کو راحت سے رکھنا اور بزرگوں سے اُس کو خوش رکھ کر اچھا بدلہ دینا‘‘۔ یہ سُن کر میں زار و قار روتا رہا، آنسوؤں سے منہ دھوتا رہا، پھر دروازے پر دستک کی تو والدہ ماجدہ نے پوچھا کون ہے؟ میں نے عرض کیا کہ آپ کا مسافر، انہوں نے دروازہ کھول کر شف ملاقات بخشا اور فرمایا: ’’تم نے اس قدر طویل سفر اختیار کیا کہ روتے روتے میری بصارت ختم ہوگئی اور تیرے غم سے کمر جھک گئی‘‘۔

ایک رات آپ کی والدہ ماجدہ نے پانی طلب کیا۔ آپ پانی لینے گئے کوزہ میں پانی نہ تھا، گھڑے میں دیکھا تو وہ بھی خالی تھا۔ چنانچہ پانی کے لیے غدی پر گئے اور جب واپس آئے تو والدہ صاحبہ سوچکی تھیں۔ شدید سردی کا موسم تھا۔ آپ پانی کا کوزہ ہاتھ میں اُٹھائے کھڑے رہے۔ جب والدہ ماجدہ کی آنکھ کھلی تو پانی پیا اور آپ کو دعاؤں سے نوازا اور فرمایا کہ کوزہ نیچے کیوں نہ رکھ دیا؟ عرض کیا کہ میں ڈرتا رہا کہ آپ بیدار ہوکر پانی طلب فرمائیں اور میں شاید اس وقت حاضر نہ ہوں۔

آپ فرماتے ہیں کہ اسی طرح ایک اور موقع پر والدہ محترمہ نے فرمایا کہ آدھا دروازہ بند کردو میں صبح تک ہی سوچتا رہا کہ کون سا آدھا بند کروں، دائیں طرف کایا بائیں طرف کا تاکہ والدہ صاحبہ کے حکم کے خلاف نہ ہو۔ صبح کے وقت مجھے وہ سب کچھ مل گیا جس کو میں ڈھونڈھتا تھا، پھر آپ کو وہ مقام حاصل ہوا کہ حضرت جنید بغدادی قدس سرہ العزیز جیسے اکابر بھی پکار اُٹھے کہ بایزید ہماری جماعت میں ایسے ہیں جیسا کہ فرشتوں میں حضرت جبریل امین، اور دیگر سالکین کے میدان کی انتہا بایزید رحمہ اللہ کے میدان کی ابتدا ہے۔

ایک دفعہ آپ مکہ مکرمہ سے واپس آ رہے تھے کہ راستہ میں ہمدان سے کسم (ایک قسم کا پھول) کا بیچ خرید کر اپنے خرقہ میں باندھ لیا۔ بسطام آکر جو کھولا تو اس میں چند کیڑے نظر آئے، فرمانے لگے کہ میں نے ان کو بے وطن کیا ہے، پھر دوبارہ ہمدان جاکر کیڑوں کو اُن کے وطن پہنچا کر واپس آئے۔

ایک روز آپ نے صحرا میں اپنا کپڑا دھویا، ایک عقیدت مند جو ساتھ تھا، عرض کرنے لگا کہ اسے انگوروں کی دیوار پر لٹکادیتے ہیں، فرمایا: ایسا نہ کرنا کہ درخت کی شاخیں ٹوٹ جائیں گی، عرض کیا گیا کہ گھاس پر پھیلادیتے ہیں، فرمایا ایسا نہ کرنا کہ گھاس چوپاؤں کا چارہ ہے ہم اُسے اُن سے نہیں چھپاتے پس آپ کپڑے کو پشت مبارک پر رکھ کر دھوپ میں کھڑے ہوگئے جب ایک طرف سوکھ گئی تو دوسری طرف اُلٹا دیا۔

ایک دفعہ آپ جامع مسجد میں تشریف لے گئے اور اپنا عصا مبارک زمین میں گاڑ دیا، اُس کے پہلو میں ایک شیخ نے اپنا عصا گاڑا ہوا تھا، اتفاق سے آپ کا عصا اُس شیخ کے عصا پر گرا جس سے وہ بھی گر پڑا۔ شیخ نے جھک کر اپنا عصا اٹھایا او رگھر کر روانہ ہوگیا، آپ نے اُس کے گھر جاکر معذرت کی کہ آپ کو جھکنے کی زحمت اس وجہ سے اٹھانا پڑی کہ میں نے اپنا عصا اچھی طرح نہ گاڑا تھا، ورنہ آپ کو یہ تکلیف نہ کرنا پڑتی۔

ایک دفعہ کسی  نے بتایا کہ فلاں جگہ ایک بہت بڑے بزرگ ہیں۔ آپ ان کی ملاقات کو گئے اور جب اُن کے پاس پہنچے تو انہوں نے جانبِ قبلہ تھوکا۔ آپ یہ دلخراش منظر دیکھ کر واپس آگئے اور فرمایا کہ اگر اس شخص کو طریقت کی ذرہ بھر بھی خبر ہوتی تو اس طرح خلاف ادب کام وقوع پذیر نہ ہوتا۔

آپ کے گھر سے مسجد کا فاصلہ چالیس قدم تھا مگر بوجہ تعظیم مسجد کبھی بھی راستہ میں نہیں تھوکا۔

آپ کے پاس ایک اونٹ تھا جس پر اپنا اور مریدوں کا سامان لاد کر چلا کرتے تھے۔ ایک دن سامان لاد کر کہیں تشریف لے جا رہے تھے کہ ایک شخص نے کہا کہ بے چارے اونٹ پر کس قدر بوجھ لاد دیا گیا ہے، آپ نے ارشاد کیا کہ ’’غور سے دیکھو، اونٹ پر کوئی بوجھ ہے؟‘‘ اُس نے  دیکھا تو بوجھ ایک ہاتھ اُونچا تھا، فرمایا سبحان اللہ! عجیب معاملہ ہے کہ اگر میں اپنا حال تم لوگوں سے پوشیدہ رکھوں تو ملامت کرتے ہو اور اگر ظاہر کروں تو اس کی تم لوگوں کو طاقت نہیں ہے، پھر اُس شخص سے فرمایا کہ تم میں سے بعض لوگوں کو میری زیارت سے لعنت ہوتی ہے اور بعض پر رحمت ہوتی ہے۔ لعنت اس وجہ سے کہ جب وہ شخص میرے پاس آتے ہیں اور مجھ پر اُس وقت خاص حالت غالب ہوتی ہے، وہ مجھے اپنے آپ میں نہیں پاتے اور میری غیبت کرتے ہیں دوسرے لوگ آئے، حق کو مجھ پر غالب پاکر معذور رکھتے ہیں اُن پر رحمت ہوتی ہے۔

ایک دفعہ ارشاد فرمایا کہ دل چاہتا ہے کہ قیامت کے دن دوزخ کی طرف اپنا خیمہ نصب کر لوں کہ وہ مجھے دیکھ کر پست اور ٹھنڈا ہوجائے اور خلقِ خدا کو راحت ملے، پھر فرمایا کہ ایک بار میں نے خواب میں اللہ تعالیٰ کو دیکھا، میں نے عرض کیا: یا اللہ! تجھ تک پہنچنے کا راستہ  کس طرح سے ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ردع نفسک وتعال الی یعنی ’’اپنے نفس کو چھوڑ اور آ‘‘۔ پھر ارشاد کیا کہ نماز سے سوائے کھڑا ہونے اور روزہ سے سوائے بھوکا رہنے کے کچھ حاصل نہ ہوا مجھے تو جو کچھ ملا اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ملا ہے نہ کہ عمل سے، کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم شاملِ حال نہ ہو، جہد و سعی سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔

ایک دفعہ فرمایا کہ مجھے الہام ہوا کہ اے بایزید! تو عبادت تو کرتا ہے مگر اس سے بہتر چیر ہمارے سامنے پیش کر، میں نے عرض کیا، اے ربّ ذوالجلال تیرے پاس کیا چیز نہیں ہے جو لاؤں؟ الہام ہوا، اے بایزید! ہمارے ہاں عاجزی،  انکساری، بیچارگی اور شکستگی نہیں ہے وہ لاکر پیش کر۔

بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ خلوت میں آپ کی زبان سے سُبْحَانِیْ مَا اَعْظَم شَانی نکلا جب اپنے آپ میں آئے تو مریدوں نے عرض کیا کہ آپ کی زبان سے یہ کلمہ نکلا تھا، فرمایا تم پر خدا کی مار ہو، اب اگر ایسا کلمہ میرے منہ سے سنو تو مجھ کو ٹکڑے ٹکڑے کردینا اور ایک ایک چھری  اُن سب کو دے دی پھر جب اُن سے یہ کلمہ سرزد ہوا تو مریدوں نے قتل کے ارادہ سے چھریاں اٹھائیں مگر تمام گھر کو اُن کی شکل سے معمور پایا، مریدانِ با صفا چھریاں چلاتے تو ایسا معلوم ہوتا کہ وہ پانی پر چلا رہے ہیں، آخرکار چڑیا  کی طرح محراب میں بیٹھے نظر آئے تو مریدوں نے تمام قصہ بیان کیا۔ آپ نے فرمایا کہ بایزید تو یہ ہے جو سامنے موجود ہے جس کو تم دیکھتے رہے وہ بایزید نہ تھا۔

ایک مرتبہ حضرت شفیق بلخی اور ابوتراب بخشی رحمہ اللہ آپ کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے۔ ایک مرید پاس بیٹھا تھا جو شریکِ طعام نہ تھا۔ حضرت ابوتراب بخشی رحمہ اللہ نے اُس سے کہا کہ آؤ تم بھی کھانا کھاؤ، اُس نے کہا کہ میرا روزہ ہے، انہوں نے کہا کہ کھانا کھاؤ اور ایک مہینہ کے روزوں کا ثواب حاصل کرو، وہ نہ مانا، پھر حضرت شفیق بلخی رحمہ اللہ نے اُسے کہا کہ آؤ میاں! کھانا کھاؤ اور ایک برس کے روزوں کا ثواب پاؤ اس نے پھر انکار کیا اس پر آپ (حضرت بایزید بسطامی رحمہ اللہ، نے فرمایا کہ اسے جانے دو، یہ راندۂ درگاہ ہے۔ چنانچہ چند دنوں بعد وہ چوری کے جرم میں پکڑا گیا اور اس کے دونوں ہاتھ کاٹ دیے گئے۔

ایک دفعہ کسی نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ کا پیر کون ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ایک بوڑھی عورت اس شخص نے پوچھا کہ وہ کیونکر؟ فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نے غلبۂ شوق میں جنگل کی راہ لی، وہاں ایک بڑھیا کو بوجھ اُٹھائے ہوئے دیکھا، وہ مجھ سے کہنے لگی کہ یہ بوجھ مجھ سے بہت بھاری ہے ذرا اسے اٹھانا اُس وقت میری حالت یہ تھی کہ میں اپنے وجود کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھا۔ اُس بڑھیا کا بوجھ کیسے اُٹھاتا، میں نے ایک شیر کی جانب اشارہ کیا، وہ آیا تو  میں نے وہ بوجھ اُس کی پشت پر رکھ دیا اور بڑھیا سے کہا کہ اب تو شہر جاکر کیا بیان کرے گی؟ اس بڑحیا نے کہا کہ میں کہوں گی کہ آج ایک ظالم  کو دیکھا ہے میں نے کہا کہ کیسے؟ اس نے مجھ سے سوال کیا کہ شیر مکلف ہے یا غیر مکلف؟ میں نے کہا کہ غیر مکلف، بڑھیا نے کہا کہ جس کو خدا تکلیف نہ دے اور اُس کو تو تکلیف دے تو تو ظالم ہے یا نہیں؟ میں نے کہا کہ ظالم، اس پر بڑھیا نے کہا کہ پھر بھی تو چاہتا کہ شہر کے لوگ جان لیں کہ شیر تیرے تابع ہے اور تو صاحبِ کرامت ہے یہ سن کر میں نے توبہ کی۔

ایک مرتبہ آپ قبرستان سے واپس شہر تشریف لا رہے تھے کہ رؤسائے شہر کا ایک بگڑا ہوا نوجوان باجا بجاتا چلا آ رہا تھا۔ آپ نے اُسے دیکھ کر لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ پڑھا۔ اُس رئیس زادے نے اپنا باجا آپ کے سر اقدس پر اس زور سے مارا کہ باجا ٹوٹ گیا اور آپ کا سر مبارک بھی پھٹ گیا دوسرے دن صبح کے وقت آپ نے باجا کی قیمت اور حلوے کی ایک پلیٹ اپنے ایک مریدِ خاص کے ہاتھ اُس جوانِ رعنا کے پاس بھیجی اور معذرت کی کہ کل باجے کے ٹوٹنے سے اس کا نقصان ہوگیا ہے لہٰذا اس قیمت سے نیا باجا خرید لو اور حلوہ کھاکر کل کے غم و غصہ کو فراموش کردو۔ اُس نوجوان نے جب یہ معاملہ دیکھا تو زار و قطار روتا ہوا آپ کے قدموں سے لپٹ گیا۔ معذرت چاہی، توبہ کی اور پھر شرفِ بیعت سے مشرف ہوگیا۔ اُس کے تمام ساتھی بھی بیعت ہوکر صراطِ مستقیم پر گامزن ہوگئے۔ یہ تھا آپ کی خوش اخلاقی کا کرشمہ، آپ کا اخلاق حضور سیّد عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا سچا نمونہ تھا جس کے متعلق کسی شاعر نے کہا ہے کہ      ؎

کچھ اُن کے خلق نے کچھ اُن کے پیار نے کرلی
مسخر اس طرح دنیا شاہِ ابرار نے کرلی

ایک روز آپ کو ذوقِ عبادت حاصل نہیں ہو رہا تھا۔ خادم کو حکم دیا کہ دیکھو! آج گھر میں کیا چیز آ گئی ہے جو سوہانِ روح بن گئی ہے۔ تلاش کرنے پرا نگور کا ایک خوشہ نکلا، فرمایا! اسے فوراً کسی مستحق کو دے دو، ہمارا گھر میوہ فروش کی دکان نہیں ہے۔ فوراً آپ کی عبادت میں لذت و سرور پیدا ہوگیا۔

آپ کے پڑوس میں ایک آتش پرست رہتا تھا۔ ایک دفعہ وہ کسی کام کی غرض سے سفر پر گیا۔ رات کو اس کا بچہ اندھیرے کی وجہ سے روتا تھا۔ آپ اپنا چراغ اُس کے گھر لے جاتے تو وہ بچہ ہنسنے کودنے اور کھیلنے لگتا۔ جب وہ آتش پرست سفر سے واپس آیا تو بیوی نے تمام حال کہہ سنایا، اُس نے کہا کہ جب آپ کی روشنی ہمارے گھر آگئی تو اب کاہے کو اندھیرے میں رہیں، اُسی وقت مسلمان ہوگیا۔

روایت ہے کہ ایک آتش پرست کو کسی نے کہا کہ تو مسلمان ہوجا۔ اُس نے کہا کہ اگر مسلمانی یہ ہے جو بایزید میں ہے تو وہ مجھ سے بھاری ہے اور جیسی تم میں ہے وہ مجھے منظور نہیں۔

آپ کے پاس ایک مرید تیس برس سے خدمت گزار تھا، آپ ہر روز اُس سے نام دریافت فرماتے وہ بتادیتا۔ ایک روز اُس نے کہا کہ اے شیخ! میں تیس سال سے آپ کی خدمت میں حاضر ہوں، آپ ہر روز میرا نام دریافت فرماتے ہیں اور پھر بھول جاتے ہیں، آپ نے فرمایا کہ میں مذاق نہیں کرتا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب سے اللہ تعالیٰ کا نام دل میں سما گیا ہے کچھ اور یاد نہیں رہا ہر روز تیرا نام پوچھتا ہوں اور بھول جاتا ہوں۔

ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے ایسی نصیحت فرمائیے جس سے میری نجات ہوجائے۔ آپ نے فرمایا: دو باتیں یاد کرے یہی کافی ہیں۔ اول یہ کہ اللہ تعالیٰ دانا و بینا ہے یعنی تیرے تمام حال سے آگاہ اور تیرے ہر کام کو دیکھتا ہے۔ دوم یہ کہ تیرے عمل سے بے نیاز ہے۔

ایک روز کسی شخص نے عرض کیا کہ اپنے پوستین کا ایک ٹکڑا مجھے دے دیجیے کہ آپ کی برکت حاصل ہو، فرمانے لگے کہ میرا پوستین پہننے کا  کیا فائدہ جبکہ میرے جیسے عمل نہ کرے پھر فرمایا کہ سچا عابد اور سچا عامل وہ ہے کہ جو اپنی جدو جہد کی تلوار سے اپنی تمام خواہشات کا سر کاٹ دے اور اس کی تمام شہوات و تمنائیں اللہ تعالیٰ کی محبت میں فناہ ہوجائیں اور جو چیز اللہ تعالیٰ کو پسند ہو اُسے بھی وہی پسند ہو اور جو اللہ تعالیٰ کی مرضی ہو اس کی بھی وہی مرضی ہو                ؎

سر تسلیم خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے

ایک دفعہ ارشاد کیا کہ اللہ تعالیٰ کو پہچاننے کی یہی نشانی ہے کہ لوگوں سے دور رہے عارف کے لیے یہ ادنیٰ سی بات از بس ضروری ہے کہ مال و دولت سے محترز رہے نیک لوگوں کی صحبت نیک کام کرنے سے بہتر ہے اور برے لوگوں کی صحبت برے کام کرنے سے  بری ہے کیونکہ       ؎

صحبتِ صالح ترا صالح کند

 

صحبتِ طالع ترا طالع کند

جس نے اپنی خواہشات ترک کردیں اُس نے اللہ تعالیٰ کو پالیا۔ اپنے آپ کو ایسا ظاہر کرو جیسے کہ تم ہو، اللہ تعالیٰ کی محبت  یہ ہے کہ دنیا اور آخرت کو دوست نہ رکھے۔ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اور قریب سب سے زیادہ وہ شخص ہے کہ لوگوں کی تکلیفیں برداشت کرے اور خوش اخلاقی سے پیش آئے۔

ایک دفعہ کسی نے دریافت کیا کہ آپ بھوک کی کیوں زیادہ تعریف  کرتے ہیں۔ فرمایا کہ اگر فرعون بھوکا ہوتا تو انا ربکم الاعلٰی نہ کہتا، کسی نے دریافت کیا کہ متکبر کس کو کہتے ہیں، فرمایا کہ جو دنیا میں اپنے آپ سے زیادہ خبیث چیز دیکھے پھر فرمایا کہ مردوں کا کام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے دل نہ لگائیں۔

حضرت ذوالنون مصری رحمہ اللہ نے آپ کے پاس پیغام بھیجا کہ اے بایزید! رات کو جنگل میں آرام اور سکون سے سوتے ہو، قافلہ تو چلا گیا، آپ نے جواب میں ارشاد فرمایا کہ کامل تو وہ ہے جو رات کو سوجائے اور صبح کو قافلہ اُترنے سے پہلے منزل پر پہنچ جائے، حضرت ذوالنون یہ سن کر رو پڑے اور کہا کہ بایزید! تمہیں مبارک ہو، میں اس مرتبے کو نہیں پہنچا۔

حضرت یحییٰ بن معاذ رحمہ اللہ نے آپ کو لکھا کہ ایسے شخص کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے کہ جو ایک جامِ ازلی سے ایسا مست ہوگیا ہے کہ اُس کی مستی ابد تک جاری رہنے والی ہوگئی ہے۔ آپ نے جواباً تحریر فرمایا کہ یہاں ایک ایسا فرد بھی موجود ہے جو ازل و ابد کے بحرِ بیکراں کو پی کر بھی یہی کہتا ہے کہ کچھ اور مل جائے پھر ایک مرتبہ یحییٰ بن معاذ نے تحریر کیا کہ میں آپ کو ایک راز بتانا چاہتا ہوں لیکن اُس وقت بتاؤں گا جب ہم دونوں شجرِ طوبیٰ (بہشت کا ایک عظیم الشان درخت) کے نیچے کھڑے ہوں گے اور قاصد کو ایک ٹکیہ دے کر  یہ ہدایت بھی فرمادی کہ بایزید سے کہنا اس کو کھالیں کہ یہ آب زمزم سے گوندھی گئی ہے۔ جواباً حضرت بایزید نے تحریر فرمایا کہ جس جگہ خدا تعالیٰ کو یاد کیا جاتا ہے وہاں جنت اور طوبیٰ دونوں موجود ہوتے ہیں اور ٹکیہ اس لیے واپس کر رہا ہوں کہ آبِ زمزم سے گوندھنے کی فضیلت اپنی جگہ مسلم لیکن یہ کسے معلوم کہ جو بیچ بویا گیا تھا وہ کسبِ حلال کا تھا یا کسبِ حرام کا۔ مجھے اس ٹکیہ کے حلال ہونے میں شک ہے۔

ایک دفعہ ایک جماعت آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور قحط کی شکایت کی اور عرض کیا کہ دعا فرمائیے، بارش ہوجائے، یہ سن کر آپ نے سر جھکالیا، پھر سر اٹھاکر فرمایا، جاؤ! اپنے پرنالوں کو دوست کرلو،  فوراً بارش آگئی اور مسلسل ایک دن ایک رات برستی رہی۔

حضرت ابوسعید میخورانی رحمہ اللہ آپ کی خدمت میں بغرضِ امتحان آئے، آپ نے فرمایا! میرے مرید ابوسعید، راعی کے پاس جاؤ کیونکہ ولایت و کرامت ہم نے اُسے بخش دی ہے۔ جب ابوسعید وہاں پہنچے تو راعی کو دیکھا کہ صحرا میں نماز پڑھ رہے ہیں اور بھیڑیے نے آپ کی بھیڑوں کی گلہ بانی کے فرائض سنبھال رکھے ہیں۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو پوچھا کیا چاہتے ہو؟ کہا گرم روٹی اور انگور، راعی نے ہاتھ کی لکڑی کے دو ٹکڑے کر کے ایک اپنے آگے اور دورا اُس کے آگے گاڑ دیا، فوراً انگور لگ گئے مگر راعی کی طرف سفید اور اُس کی طرف سیاہ تھے۔ اُس نے راعی سے سبب پوچھا، راعی نے جواب دیا کہ میری طلب بطور یقین اور تیری طلب بطور امتحان تھی۔ ہر چیز کا رنگ اُس کے حال کے موافق ہوا کرتا ہے اس کے بعد راعی نے ابوسعید میخورانی رحمہ اللہ کو اپنی گدڑی دی اور فرمایا کہ اسے سنبھال کر رکھنا مگر جب وہ حج کو گئے تو عرفات میں گم ہوگئی۔ جب بسطام واپس آئے تو راعی کے پاس دیکھی۔

ایک دفعہ ملک روم میں لشکرِ اسلام کے مقابلہ میں کفار کا لشکرِ جرآر تھا۔ قریب تھا کہ مسلمانوں کو شکست فاش ہوکہ حضرت بایزید نے یہ آواز سنی ’’بایزید در یاب‘‘ (اے  بایزید خبر لیجیو) اسی وقت خراسان کی طرف سے آگ نمودار ہوئی جس کی دہشت سے لشکرِ کفار میں تہلکہ مچ  گیا اور مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ یہ تھیں آپ کی کشفت و کرامات۔

آپ کی وفات حسرت آیات ۱۵؍شعبان ۲۶۹ھ/ ۱۸۸۳ء بروز جمعۃ المبارک بعمر شریف ۱۲۳ سال بُسطام شہر میں ہوئی۔ وصال کے بعد لوگوں نے آپ کو خواب میں دیکھا اور آپ کا حال دریافت کیا آپ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا بوڑھے! تو میرے واسطے کیا لایا ہے؟ میں نے عرض کیا: خداوندا! جب کوئی فقیر بادشاہ کی درگاہ میں آتا ہے تو اس سے یہ نہیں پوچھا جاتا کہ تو ہمارے واسطے کیا لایا ہے بلکہ یہ پوچھتے ہیں کہ تو کیا مانگتا ہے۔

جب آپ کو دفن کیا گیا تو شیخ احمد خضرویہ کی بیوی زیارت کو آئی، زیارت سے فارغ ہوکر کہنے  لگی، تم جانتے ہو کہ شیخ بایزید کون  تھے؟ لوگوں نے کہا تو بہتر جانتی ہے کہنے لگی کہ ایک رات میں طوافِ کعبہ کر رہی تھی، کچھ دیر بعد بیٹھ گئی اور سو گئی، میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے آسمان پر لے جایا گیا میں نے عرش کے نیچے ایک بیابان دیکھا جس کی لمبائی اور چوڑائی کی کوئی حد نہ تھی، وہ تمام بیابان گل و گلزار بنا ہوا تھا اور اس کے پھولوں کی ہر پتی پر لکھا ہوا تھا کہ بایزید ولی اللہ تھا۔

حضرت شیخ ابوسعید ابوالخیر رحمہ اللہ آپ کی زیارت کو آئے تو فرمانے لگے کہ یہ وہ جگہ ہے کہ دنیا میں جس شخص کی کوئی چیز گم ہوجائے وہ یہاں آکر ڈھونڈ لے۔

کلماتِ قدسیہ:

۱۔       آپ سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے یہ معرفت کس طرح حاصل کی؟ جواب دیا کہ بھوکے پیٹ اور ننگے بدن سے۔

۲۔       میں نے تیس سال مجاہدے میں گزارے۔ اس عرصہ میں کسی چیز کو اپنے اُوپر ایسا سخت نہ پایا جیسا کہ علم اور اُس پر عمل کو۔ اگر علماء کا اختلاف نہ ہوتا تو میں ایک اجتہاد پر رہتا یعنی متفق علیہ قول پر میرا عمل ہوتا۔ علماء کا اختلاف سوائے تجریدِ توحید کے رحمت ہے۔

۳۔      شیخ عمی بسطامی (آپ کے برادر زادہ اور مرید صادق) کا بیان ہے کہ میں نے اپنے باپ کو یہ کہتے سنا کہ  بایزید رحمۃ اللہ نے مجھ سے کہا کہ ہمارے ساتھ  چلو تاکہ اُس شخص کو دیکھیں جس نے اپنے آپ کو ولی مشہور کر رکھا ہے اور وہ زہد و تقویٰ میں مشہو و معروف ہے۔ جب ہم اس کے پاس گئے تو وہ اپنے گھر سے نکل کر مسجد میں داخل ہوا اور قبلہ رو تھوکا۔ یہ دیکھ کر آپ واپس آگئے کہ یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف عمل کرتا ہے یہ کیسے اپنے دعویٰ ولایت میں سچا ہوسکتا ہے۔

۴۔      میں نے ارادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کروں کہ وہ مجھے کھانے کی طلب  اور عورتوں کی چاہت سے بچائے۔ پھر خیال آیا کہ یہ سوال میرے واسطے کس طرح جائز ہے جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے یہ سوال نہیں کیا لہٰذا باز رہا۔ بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مجھے عورتوں کی رغبت سے ایسا بچایا کہ مجھے کبھی پرواہ نہیں رہی کہ میرے سامنے عورت کھڑی ہے یا دیوار۔

۵۔       اگر تم کسی شخص میں کرامات دیکھو اور وہ ہوا میں اُڑ کر دکھائے تو اس پر فریفتہ نہ ہو جاؤ، جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ وہ امرونہی،حفظِ حدود اور آدابِ شریعت میں کیسا ہے۔

۶۔       آپ نے آخری وقت فرمایا :خدایا میں نے تجھ کو یاد نہ کیا مگر غفلت سے اور تیری عبادت نہ کی مگر سستی سے۔

۷۔      ایک رات میں نے اپنے حجرے میں پاؤں پھیلالیے۔ ہاتف نے مجھے آواز دی کہ بادشاہوں کی صحبت میں اس طرح نہیں بیٹھا کرتے حسنِ ادب سے بیٹھنا چاہیے کیونکہ

ادب ضرور ہے شاہوں کے آستانے کا

۸۔      میں نے اللہ کو اللہ کے ساتھ پہنچا اور اللہ کے ماسوا کو اللہ کے نور کے ساتھ پہچانا۔

۹۔       اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نعمتوں سے نوازا تاکہ وہ اپنے اللہ کا شکر ادا کریں اور اُسے یاد کریں مگر وہ نعمتیں پاکر غافل ہوگئے۔

۱۰۔      اے خدا! تو نے مخلوق کو اُن کے علم کے بغیر پیدا کیا اور اُن کے ارادہ کے بغیر اُن کے گلے میں امانت ڈال دی پس اگر تو اُن کی مدد نہ کرے گا تو اور کون کرے گا۔

۱۱۔      آپ سے دریافت کیا گیا کہ سنت و فریضہ ہے؟ فرمایا: کہ سنت تمام دنیا کا ترک کرنا اور فریضہ اللہ کے ساتھ صحبت ہے۔ وجہ یہ کہ سنت تمام ترکِ دنیا پر دلالت کرتی ہے اور کتاب تمام صحبتِ مولیٰ پر دلالت کرتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ  کا کلام  اس کی ایک صفت ہےا ور نعمتیں ازلی ہیں پس واجب ہے کہ اُن کا شکر ازلی ہو۔

۱۲۔      میں نے رب العزت کو خواب میں دیکھا، پوچھااے میرے  پروردگار! میں تجھے کس طرح پاؤں؟ ارشاد ہوا کہ اپنے نفس کو چھوڑ اور میری طرف آ۔

۱۳۔     آپ سے دریافت کیا گیا کہ انسان کب متواضع ہوتا ہے، فرمایا جب اپنی ذات کے لیے کوئی مقام و حال نہ دیکھے اور نہ لوگوں میں اپنے سے کسی کو بدتر سمجھے (بہادر شاہ ظفر رحمہ اللہ نے غالباً اسی طرف ہی اشارہ کیا ہے، ع،پڑی جو اپنی برائیوں پہ نظر تو جہاں میں کوئی برا نہ رہا، قصوؔری)

۱۴۔     عام مسلمانوں کے مقام کی انتہاء اولیاء اللہ کے مقام کی ابتدء ہے اور اولیاء اللہ کے مقام  کی انتہاء شہداء کے مقام کی ابتداء ہے اور شہداء کے مقام کی انتہاء صدیقوں کے مقام کی ابتداء ہے اور صدیقوں کے مقام کی انتہاء بیوں کے مقام کی ابتداء ہے اور نبیوں کے مقام کی انتہا رسولوں کے مقام کی ابتداء ہے اور رسولوں کے مقام کی انتہا حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی ابتداء ہے صلی اللہ علیہ وسلم اور حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام کی انتہاء کسی کو بھی  معلوم نہیں۔ صرف اللہ تعالیٰ ہی آپ کے مقام و مرتبہ کو جانتا ہے۔ روزِ ازل اور روزِ میثاق روحوں کا مقام انہی مراتب پر تھا جو اوپر درج کردیے گئے ہیں اور روزِ قیامت بھی یہی مراتب ہوں گے اور انہی مراتب پر ہی اُن کو اللہ تعالیٰ کی محبت کے اسرار نصیب ہوں گے۔

۱۵۔      آپ سے دریافت کیا گیا کہ نماز کی صحیح تعریف کیا ہے؟ فرمایا کہ جس کے ذریعے خدا سے ملاقات ہوسکے۔

۱۶۔      فرمایا! کہ تیس سال تک تو اللہ تعالیٰ میرا آئینہ بنا رہا لیکن اب میں خود آئینہ بن گیا ہوں اس لیے کہ میں نے اُس کی یاد میں خود کو بھی فراموش کردیا ہے اور اب اللہ تعالیٰ میری زبان بن چکا ہے یعنی میری زبان سے نکلنے والے  کلمات گویا نطقِ خداوندی سے نکلتے ہیں اور میرا وجود درمیان سے ختم ہوجاتا ہے۔

(تاریخِ مشائخ نقشبند)

 


متعلقہ

تجویزوآراء