سلطان العارفین ابویزید طیفور بن عیسی بسطامی
سلطان العارفین ابویزید طیفور بن عیسیٰ بسطامی قدس سرہ
ولادت باسعادت:
آپ کا دادا پہلے مجوسی تھا، پھر مسلمان ہوگیا، آپ کے دو بھائی آدم و علی نامی تھے۔ جو عابد و زاہد تھے۔ مگر آپ زہد و عبادت میں ان سے بڑھے ہوئے تھے۔ آپ کو علم باطن میں حضرت امام جعفر صادق کی روحانیت سے تربیت ہے۔ کیونکہ آپ کی پیدائش حضرت امام کی وفات شریف کے بعد ہے۔
بچپن کے حالات:
بچپن میں آپ نے مکتب میں پڑھنا شروع کیا۔ جب آپ سورہ لقمان کی اس آیت پر پہنچے۔ ان اشکر لی ولوالدیک۔ یعنی شکر کر میرا اور اپنے ماں باپ کا۔ تو آپ استاد سے رخصت لے کر گھر آئے اور اپنی والدہ ماجدہ سے کہا کہ میں اس آیت تک پہنچا ہوں جس میں باری تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ شکر کر میرا اور اپنے والدین کا۔ اب میری عرض یہ ہے کہ میں دو گھروں سے تعلق نباہ نہیں سکتا یا تو آپ مجھے خدا تعالیٰ سے مانگ لیجیے کہ بالکل آپ ہی کا ہو رہوں یا خدا تعالیٰ ہی کو سونپ دیجیے کہ اسی کا ہو رہوں۔ والدہ نے جواب دیا کہ میں نے تجھے اپنا حق بخش دیا۔ اور راہِ خدا کے لیے چھوڑ دیا۔
ریاضت و مجاہدہ:
یہ سن کر آپ بسطام سے نکلے اور تیس سال تک بادیۂ شام میں ریاضت و مجاہدہ کرتے رہے۔ کسی نے آپ سے دریافت کیا کہ سخت سے سخت مجاہدہ کون سا ہے؟ جو آپ نے راہِ خدا میں کیا ہے، فرمایا کہ اس کا بیان ممکن نہیں، اس نے عرض کیا کہ آسان سے آسان تکلیف تو بتادیجیے جو آپ کے نفس نے اٹھائی ہے، فرمایا ہاں یہ تو سن لو، ایک دفعہ میں نے اپنے نفس کو کسی طاعت کی طرف بلایا اس نے میرا کہا نہ مانا، اس پر میں نے اسے ایک سال پیاسا رکھا۔
حج کا سفر:
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ حج کے لیے روانہ ہوئے اور بارہ سال میں کعبہ میں پہنچے۔ راستے میں چند قدم چلتے اور جا نماز بچھا کر دو رکعت نماز پڑھتے، فرما تے کہ یہ دنیا کے بادشاہوں کا دربار نہیں کہ یکبارگی وہاں پہنچ سکیں۔ اس دفعہ آپ حج سے فارغ ہوکر واپس آگئے اور مدینہ منورہ میں حاضر نہ ہوئے۔ فرمایا کہ زیارتِ روضہ منورہ کو حج کے تابع بنانا خلاف ادب ہے۔ اس لیے آیندہ سال آپ نے روضہ منورہ کی زیارت کے لیے علیحدہ احرام باندھا۔ راستے میں آپ ایک شہر میں داخل ہوئے۔ لوگ آپ کے گرد جمع ہو گئے۔ جب وہاں سے نکلے تو ا پنے پیچھے ہجوم دیکھ کر پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ جواب ملا کہ یہ لوگ آپ کے ساتھ ہی رہیں گے۔ آپ نے چاہا کہ کسی طرح یہ مجھ سے دور ہوجائیں اس لیے نماز فجر کے بعد آپ نے لوگوں کی طرف متوجہ ہوکر یہ آیت پڑھی: انی انا اللہَ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اَنَا فَاعْبُدنِی (بے شک میں ہی اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں پر تم میری عبادت کرو) یہ سن کر انہوں نے کہا کہ یہ تو دیوانہ ہے اور آپ کو چھوڑ کر چلے گئے۔
نماز کی کیفیت:
جب آپ نماز پڑھتے تو ہیبت حق اور تعظیم شریعت کے سبب سے آپ کے سینہ کی ہڈیوں سے اس قدر چرچراہٹ کی آواز نکلتی کہ لوگ سن لیتے۔ ایک روز آپ ایک امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو امام نے آپ سے پوچھا اے شیخ! آپ کوئی کسب نہیں کرتے اور نہ کسی سے سوال کرتے ہیں۔ آپ کھاتے کہاں سے ہیں؟ آپ نے فرمایا ٹھیرو میں نماز کا اعادہ کرلوں۔ کیونکہ جو شخص روزی دینے والے کو نہیں جانتا اس کے پیچھے نماز جائز نہیں۔
ابوعلی جوزجانی سے ان الفاظ کی نسبت سوال کیا گیا جو بایزید سے منقول ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ ہم بایزید کے حال کو تسلیم کرتے ہیں۔ شاید وہ الفاظ ان سے غلبۂ حال یا حالت سکر میں صادر ہوئے ہیں۔ جو شخص بایزید کا مقام حاصل کرنا چاہے اسے بایزید کی طرح مجاہدہ نفس کرنا چاہیے۔ تب وہ بایزید کے کلام کو سمجھے گا۔
والدہ کی رضا:
نقل ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جس کام میں سب سے موخر سمجھتا تھا وہ سب سے مقدم نکلا۔ اور وہ والدہ کی رضا تھی۔ نیز فرمایا کہ جو کچھ میں ریاضات و مجاہدات اور مسافرت میں ڈھونڈتا رہا وہ اسی میں پایا۔ ایک رات میری ماں نے مجھ سے پانی مانگا میں پانی لینے گیا، کوزہ میں پانی نہ تھا، میں نے گھڑی میں دیکھا وہاں بھی نہ ملا، میں ندی پر گیا وہاں سے پانی لایا اتنے میں والدہ سوگئی تھیں اور رات جاڑے کی تھی، میں نے کوزہ ہاتھ میں اٹھائے رکھا، جب ان کی آنکھ کھلی تو پانی پیا اور مجھے دعا دی، کوزہ اسی طرح میرے ہاتھ میں جم گیا تھا، فرمایا نیچے کیوں نہ رکھ دیا، میں نے عرض کی کہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں آپ جاگ اٹھیں اور میں حاضر نہ ہوں، ایک اور موقع پر میری والدہ ماجدہ نے فرمایا کہ آدھا دروازہ بند کردو، میں صبح تک یہی سوچتا رہا کہ کون سا آدھا بند کروں دائیں طرف کا یا بائیں طرف کا تاکہ والدہ کے حکم کے خلاف نہ ہوجائے، صبح کے وقت مجھے مل گیا جو میں ڈھونڈتا تھا۔
مقام ومرتبہ:
سید الطائفہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بایزید ہماری جماعت میں ایسے ہیں جیسا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں میں، دیگر سالکین کے میدان کی نہایت بایزید کے میدان کی بدایت ہے۔
جذبہ ہمدردی:
نقل ہے کہ آپ مکہ مشرفہ سے آ رہے تھے جب ہمدان میں پہنچے تو آپ نے کسم کا بیج خرید کر خرقہ میں باندھ لیا۔ بسطام میں آکر جو کھولا تو اس میں چند کیڑے نظر آئے، فرمایا میں نے ان کو بے وطن کیا ہے۔ اٹھ کر پھر ہمدان واپس گئے اور ان کیڑوں کو ان کے ٹھکانے پر پہنچادیا۔
کسر نفسی:
ایک روز آپ نے صحرا میں اپنا کپڑا دھویا، ایک ارادتمند ساتھ تھا، وہ بولا: ہم اسے انگوروں کی دیوار پر لٹکادیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا لوگوں کی دیوار میں میخ نہ گاڑو،اس نے عرض کیا کہ درخت پر لٹکادیتے ہیں۔ فرمایا ایسا نہ کرنا درخت کی شاخیں ٹوٹ جائیں گی، عرض کیا کہ گھاس پر پھیلادیتے ہیں، فرمایا ایسا نہ کرنا گھاس چوپایوں کا چارہ ہے ہم اسے ان سے نہیں چھپاتے۔ پس آپ کپڑے کو پشت مبارک پر رکھ کر دھوپ میں کھڑے ہوگئے۔ جب ایک طرف سوکھ گئی تو دوسری طرف الٹادی۔
حسن سلوک:
ایک دفعہ آپ جامع مسجد میں تشریف لے گئے، اور اپنا عصا زمین میں گاڑ دیا، آپ کے پہلو میں ایک شیخ نے اپنا عصا زمین میں گاڑا ہوا تھا، ایسا اتفاق ہوا کہ آپ کا عصا اس شیخ کے عصا پر گرا جس سے وہ بھی گر پڑا، شیخ نے جھک کر اپنا عصا اٹھایا اور گھر کو چل دیا۔ آپ بھی اس کے گھر پہنچے اور معافی مانگی، فرمایا کہ تم کو جھکنے کی تکلیف اس واسطے اٹھانی پڑی کہ میں نے اپنا عصا اچھی طرح نہ گاڑا تھا ورنہ تمہیں جھکنے کی حاجت نہ پڑتی۔
تقویٰ:
ایک رات آپ کو عبادت کا ذوق نہ آتا تھا۔ خادم سے فرمایا کہ دیکھو گھر میں کیا ہے۔ دیکھ بھال کی گئی تو انگور کا ایک خوشہ نکلا۔ آپ نے فرمایا کسی کو دے دو، ہمارا گھر میوہ فروش کی دکان نہیں، پھر آپ خوش ہوئے۔
استغراق کی کیفیت:
آپ کے استغراق کا یہ عالم تھا کہ ایک مرید بیس سال تک لگاتار آپ کی خدمت میں رہا، آپ ہر روز اس کو بلاتے، تو اس کا نام پوچھ لیتے۔ آخر ایک دن اس نےعرض کیا کہ میں بیس سال سے آپ کی خدمت میں ہوں، آپ ہر روز میرا نام دریافت کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: میں ہنسی نہیں کرتا، جب سے اس کا نام دل میں آیا ہے تمام نام بھول گئے ہیں۔ اس لیے میں ہر روز تجھ سے تیرا نام پوچھ لیتا ہوں۔ اور بھول جاتا ہوں۔
ہمسایہ سے سلوک:
نقل ہے کہ آپ کا ہمسایہ آتش پرست تھا، جس کے ہاں ایک دودھ پیتا بچہ تھا۔ وہ سفر کو گیا۔ اس کا بچہ رات کو تاریکی کے سبب سے روتا، آپ ہر روز اس کے گھر میں چراغ رکھ آتے۔ جس کی روشنی میں بچہ کھیلتا رہتا۔ جب آتش پرست سفر سے واپس آیا تو اس کی بیوی نے شیخ کا سلوک بیان کیا، آتش پرست نے کہا: افسوس! شیخ کی روشنی ہمارے گھر آئے اور ہم تاریکی میں رہیں، اسی وقت آکر مسلمان ہوگیا۔
مرد کامل کی نشانی:
ایک روز ذوالنون مصری نے ایک مرید کے ہاتھ آپ کو کہلا بھیجا، اے بایزید ! تم رات کو جنگل میں آرام سے سوتے ہو، قافلہ چلا گیا، آپ نے جواب دیا کہ مرد کامل تو وہ ہے جو رات کو سوجائے اور صبح کو قافلہ کے اترنے سے پہلے منزل پر پہنچ جائے۔ ذوالنون یہ سن کر روئے۔ اور کہا کہ بایزید کو مبارک ہو ہم اس مرتبے کو نہیں پہنچے ہیں۔ مولانا جامی نے سلسلہ الذہب میں اس حکایت کو نظم میں بیان کیا ہے۔
کرامات کا بیان:
۱۔ آپ کی والدہ محترمہ فرماتی ہیں کہ جب آپ پیٹ میں تھے۔ تو جب کبھی میں مشتبہ لقمہ کھابیٹھتی، آپ پیٹ میں تڑپنا شروع کرتے۔ جب تک قے نہ کرتی اور وہ لقمہ دور نہ ہوجاتا۔ آرام نہ کرتے، اس کا مصداق یہ ہے کہ آپ سے لوگوں نے پوچھا کہ انسان کے لیے اس راہ میں کون سی بات سب سے اچھی ہے، فرمایا مادرزاد نعمت، کہا اگر یہ نہ ہو، فرمایا دیکھنے والی آنکھ، کہا اگر یہ بھی نہ کہو، فرمایا سننےو الا کان، کہا اگر یہ بھی نہ ہو، فرمایا ناگہانی موت۔
ظاہر و باطن کا حال:
ایک دفعہ آپ حج کو جا رہے تھے اپنا اور مریدوں کا سارا اسباب ایک اونٹ پر لدا ہواتھا۔ کسی نے کہا کہ اس بے چارے اونٹ پر بوجھ زیادہ ہے۔ اور یہ بڑا ظلم ہے۔ حضرت بایزید نے جواب دیا۔ اے جوانمرد! بوجھ کا اٹھانے والا اونٹ نہیں ہے۔ غور سے دیکھ کہ اونٹ کی پیٹھ پر کچھ بوجھ ہے یا نہیں، اس نے جو دیکھا تو بوجھ اونٹ کی پیٹھ سے ایک ہاتھ اونچا تھا کہنے لگا یہ عجیب معاملہ ہے، شیخ نے فرمایا کہ اگر میں اپنا حال تم سے پوشیدہ رکھتا ہوں تو تم مجھے ملامت کرنے لگ جاتے ہو، اور اگر ظاہر کردیتا ہوں تو اس کی طاقت نہیں رکھتے، کیا کیا جائے۔
بارش کی دعا:
نقل ہے کہ ایک جماعت نے آپ کی خدمت میں قحط کی شکایت کی، اور عرض کیا کہ دعا کیجیے اللہ تعالیٰ بارش بھیجے، یہ سن کر آپ نے سر جھکالیا، پھرسر اٹھاکر فرمایا جاؤ اپنے پرنالوں کو درست کرلو، بارش آگئی بارش آگئی اسی وقت مینہ برسنا شروع ہوا ایک دن رات برستا رہا۔
تازہ انگور:
شیخ ابوسعید میخورانی حضرت بایزید کی خدمت میں بغرض امتحان آئے۔ آپ نے فرمایا میرے مرید ابوسعید راعی کے پاس جاؤ، کیونکہ ولایت و کرامت ہم نے اسے بخش دی ہے۔ جب ابوسعید وہاں پہنچے۔ راعی کو دیکھا کہ صحرا میں نماز پڑھ رہے ہیں۔ اور بھیڑیے آپ کی بھڑیوں کی گلہ بانی کر رہے ہیں۔ جب نماز سے فارغ ہوئے پوچھا کیا چاہتے ہو، کہا گرم روٹی اور انگور، راعی نے ہاتھ کی لکڑی کے دو ٹکڑے کرکے ایک اپنے آگے اور دوسرا اس کے آگے گاڑ دیا، فوراً انگور لگے۔ مگر راعی کی طرف کے سفید اور اس کی طرف کے سیاہ تھے اس نے راعی سے سبب پوچھا، راعی نے جواب دیا کہ میری طلب بطور یقین اور تیری طلب بطور امتحان تھی۔ ہر چیز کا رنگ اس کے حال کے موافق ہوا کرتا ہے۔ اس کے بعد راعی نے ابوسعید میخورانی کو اپنی گدڑی دی اور فرمایا کہ اسے سنبھال کر رکھنا۔ مگر جب وہ حج کو گئے تو عرفات میں وہ گدڑی غائب ہوگئی جب بسطام میں آئے تو راعی کے پاس دیکھی۔
مسلمانوں کو فتح:
ایک دفعہ ملک روم میں لشکر اسلام کا کفار سے مقابلہ ہوا۔ مسلمانوں کو شکست ہونے والی تھی کہ حضرت شیخ نے یہ آواز سنی، بایزید دریاب (اے بایزید خبر لیجیو) اسی وقت خراسان کی طرف سے آگ نمودار ہوئی۔ جس کی دہشت سے لشکر کفار میں تہلکہ مچ گیا۔ اور مسلمانوں کو فتح ہوئی۔
بڑھیا کی بات:
حضرت بایزید سے پوچھا گیا کہ آپ کاپیر کون ہے۔ جواب دیا کہ ایک بڑھیا، میں ایک روز ایسے غلبہ شوق و جوش توحید میں تھا کہ بال برابر بھی کسی اور چیز کی گنجائش نہ تھی، میں بے خودی کی حالت میں صحرا میں چلا گیا۔ وہاں ایک بڑھیا آٹے کی تھیلی لے کر آئی، اور مجھ سے کہا کہ اسے اٹھالو، میری یہ کیفیت تھی کہ اپنے تئیں بھی سنبھال نہ سکتا تھا۔ میں نے ایک شیر کو اشارہ کیا وہ آیا میں نے تھیلی اس کی پیٹھ پر رکھ دی اور بڑھیا سے کہا کہ جب تو شہر میں جائے گی تو کیا کہے گی کہ میں نے کس کو دیکھا اس نے جواب دیا کہ میں کہوں گی کہ میں نے ایک ظالم اور متکبر کو دیکھا میں نے کہا ذرا ہوش کر بڑھیا بولی شیر مکلف ہے یا نہیں میں نے کہا نہیں، اس نے کہا جس کو خدا تعالیٰ نے مکلف نہیں بنایا، اسے تکلیف دینا ظلم ہے یا نہیں، میں نے کہا ہاں پھر بڑھیا نے کہا کہ تو باوجود اس بات کے چاہتا ہے کہ اہل شہر جانیں کہ شیر تیرا مطیع ہے اور تو صاحب کرامات ہے۔ یہ رعنائی ہے۔ یہ سن کر میں نے توبہ کی اور اعلیٰ سے اسفل کی طرف آیا بڑھیا کی یہ بات میرا پیر ہے۔
وصال مبارک:
آپ نے (۱۵شعبان) ۲۶ھ میں بسطام[۱] انتقال فرمایا۔ وصال کے بعد لوگوں نے آپ کو خواب میں دیکھا اور آپ کا حال دریافت کیا، آپ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے پوچھا، بوڑھے! تو میرے واسطے کیا لایا ہے؟ میں نے عرض کیا خداوندا جب کوئی فقیر بادشاہ کی درگاہ میں آتا ہے اس سے یہ نہیں پوچھتے کہ تو ہمارے واسطے کیا لایا، بلکہ یہ پوچھتے ہیں کہ تو کیا مانگتا ہے۔
[۱۔ یہ شہر علاقہ قومس میں اس راستے پر جو نیشاپور کو جاتا ہے وامغان کے بعد دو منزل پرواقع ہے۔ یاقوت حموی نے اس کو با کے کسرہ کے ساتھ اور ابن خلکان نے ہا کے فتحہ کے ساتھ لکھا ہے۔ یاقوت نے اس شہر کو دیکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ حضرت بایزید کا مقبرہ اس شہر کے وسط میں بازار کی طرف واقع ہے۔]
جب آپ کو دفن کیا گیا تو علی کی والدہ جو احمد خضرویہ کی بیوی تھی زیارت کو آئی۔ جب زیارت سے فارغ ہوئی تو کہنے لگی۔ تم جانتے ہو کہ شیخ بایزید کون تھے۔ اور سو گئی۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ مجھے آسمان پر لے گئے۔ میں نے عرش کے نیچے ایک بیابان دیکھا۔ جس کی لمبائی اور چوڑائی کی کوئی حد نہ تھی۔ وہ تمام بیابان گل و ریاحین کاتھا۔ جس کے پھولوں کی ہر پتی پر لکھا تھا کہ با یزید ولی اللہ ۔ شیخ ابوسعید ابوالخیر آپ کی زیارت کو آئے تو فرمانے لگے یہ وہ جگہ ہے کہ دنیا میں جس شخص کی کوئی چیز گم ہوئی ہو وہ یہاں ڈھونڈے۔
ارشادتِ عالیہ
۱۔ آپ سے دریافت کیا گیا کہ آپ نے یہ معرفت کس طرح حاصل کی؟ جواب دیا کہ بھوکے پیٹ اور ننگے بدن سے۔
۲۔ میں نے تیس سال مجاہدے میں گذارے۔ اس عرصہ میں کسی چیز کو ا پنے اوپر ایسا سخت نہ پایا جیسا کہ علم اور اس پر عمل۔ اگر علماء کا اختلاف نہ ہوتا تو میں ایک[۱] اجتہاد پر رہتا۔ علماء کا اختلاف سوائے تجرید توحید کے رحمت ہے۔
[۱۔ یعنی قول متفق علیہ پر میرا عمل ہوتا اور ایک ہی نوع کی ملازمت کے سبب سے زیادہ مشقت میں ہوتا۔]
۳۔ عمی[۱] بسطامی کا بیان ہے کہ میں نے اپنے باپ کو یہ کہتے سنا کہ ابویزید نے مجھ سے کہا کہ ہمارے ساتھ چلو تاکہ اس شخص کو دیکھیں جس نے اپنے تئیں ولی مشہور کر رکھا ہے اور وہ زہد میں مشہور و معروف تھا۔ پس ہم اس کی طرف گئے۔ جب وہ اپنے گھر سے نکلا اور مسجد میں داخل ہوا تو اس نے اپنا لعاب دہن قبلہ کی طرف پھینکا۔ یہ دیکھ کر ابویزید واپس آگئے اور اسے سلام نہ کہا، فرمایا کہ یہ شخص رسول اللہﷺ کے آداب میں سے ایک ادب میں معتمد علیہ و امین نہیں۔ جس بات کا یہ دعویٰ کرتا ہے اس میں کس طرح معتمد علیہ ہوگا۔
[۱۔ شیخ عمی بسطامی سلطان العارفین کے برادر زادہ اور مرید ہیں۔]
۴۔ میں نے ارادہ کیا کہ اللہ تعالیٰ سے سوال کروں کہ مجھے کھانے کی تکلیف اور عورتوں کی تکلیف سے بچائے۔ پھر خیال آیا کہ یہ سوال میرے واسطے کس طرح جائز ہے۔ حالانکہ رسول اللہﷺ نے یہ سوال نہیں کیا۔ اس لیے میں اس سوال سے باز رہا۔ بعد ازاں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مجھے عورتوں کی تکلیف سے ایسا بچایا کہ مجھے پرواہ نہیں۔ میرے آگے عورت ہو یا دیوار۔
۵۔ اگر تم کسی شخص میں کرامات دیکھو یہاں تک کہ ہوا میں اڑتا ہو۔ تو اس پر فریفتہ نہ ہوجاؤ۔ جب تک یہ نہ دیکھ لو کہ وہ امر و نہی۔ حفظ ِحدود اور آداب شریعت میں کیسا ہے۔
۶۔ اپنی موت کے وقت فرمایا: خدایا میں نے تجھ کو یاد نہ کیا مگر غفلت سے۔ اور تیری عبادت نہ کی مگر سستی سے۔
۷۔ میں نے ایک رات اپنی محراب میں پاؤں پھیلایا۔ ہاتف نے مجھے آواز دی کہ جو شخص بادشاہوں کی صحبت میں بیٹھتا ہےا سے چاہیے کہ حسن ادب سے بیٹھے۔
۸۔ میں نے اللہ کو اللہ کے ساتھ پہچانا اور اللہ کے ماسوا کو اللہ کے نور کے ساتھ پہچانا۔
۹۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو نعمتیں دیں تاکہ ان کے سبب سے اللہ کی طرف رجوع کریں۔ مگر وہ ان کے سبب سے اس سے غافل ہوگئے۔
۱۰۔ اے خدا! تو نے خلق کوان کے علم کے بغیر پیدا کیا۔ اور ان کے ارادہ کے بغیر امانت ان کے گلے میں ڈال دی۔ پس اگر تو ان کی مدد نہ کرے گا تو اور کون کرے گا؟
۱۱۔ آپ سے دریافت کیا گیا کہ سنت و فریضہ کیا ہے؟ فرمایا کہ سنت تمام دنیا کا ترک کرنا اور فریضہ اللہ کے ساتھ صحبت ہے۔ وجہ یہ کہ سنت تمام ترک دنیا پر دلالت کرتی ہے۔ اور کتاب تمام صحبت ہونے پر دلالت کرتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام اس کی ایک صفت ہے اورنعمتیں ازلی ہیں۔ پس واجب ہے کہ ان کا شکرا زلی ہو۔
۱۲۔ میں نے رب العزت کو خواب میں دیکھا پوچھا کہ اے میرے پروردگار! میں تجھے کس طرح پاؤں؟ ارشاد ہوا کہ اپنے نفس[۱] (یعنی خودی کو چھوڑ دو تو ہم کو پالو گے) کو چھوڑ اور میری طرف آ۔
۱۳۔ آپ سے دریافت کیا گیا کہ انسان متواضع کب ہوتا ہے، فرمایا جب اپنی ذات کے لیے کوئی مقام و حال نہ دیکھے۔ اور نہ لوگوں میں سے اپنے سے بدتر کسی کو سمجھے۔
۱۴۔ عامہ مومنین کے مقام کی غایت اولیاء کے مقام کی ابتداء ہے۔ اور اولیاء کے مقام کی نہایت شہیدوں کے مقام کی ابتداء ہے۔ اور شہیدوں کے مقام کی غایت صدیقوں کے مقام کی ابتدا ہے اور صدیقوں کے مقام کی غایت نبیوں کے مقام کی ابتدا ہے اور نبیوں کے مقام کی غایت رسولوں کے مقام کی ابتدا ہے اور رسولوں کے مقام کی غایت اولوالعزم کے مقام کی ابتدا ہے۔ اور اولوالعزم کے مقام کی نہایت حضرت مصطفےٰ کے مقام کی ابتدا ہے۔ صلی اللہ علیہ وسلم۔ اور حضرت مصطفےٰ کے مقام کی نہایت معلوم نہیں۔ سوائے حق جل و علا کے کوئی آپ کے مقام کی نہایت نہیں جانتا۔ روز ازل میں اور میثاق کے دن روحوں کا مقام ان ہی مراتب پر تھا جو مذکور ہوئے اور قیامت کے دن بھی ان ہی مراتب پر ہوگا اور ان کے اسرار حق تعالیٰ کی محبت میں ان ہی مراتب پر ہوں گے۔
(تذکرہ اولیاء۔ رسالہ قشیریہ۔ طبقات کبری للشعرانی۔ نفحات الانس۔ انیس الطالبین مولفہ خواجہ صالح بن مبارک بخاری)۔
(مشائخِ نقشبندیہ)