"عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم" کہنا کیسا؟
"عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم" کہنا کیسا؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، محترم مفتی صاحب، کیا ہم یہ لفظ کہہ سکتے ہیں کہ۔۔۔۔۔ میں عاشقِ رسول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) ہوں۔ اکثر بدمذہبوں کو اعتراض کرتے سنا گیا ہے کہ ایسا لفظ نبی (صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) کے ساتھ نہیں لگانا چاھیئے جو ہم اپنی ماں یا بہن کے لئے نہیں لگا تے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم یہ لفظ نہیں کہتے کہ میں اپنی ماں یا بہن کا عاشق ہوں لیکن اپنے آپ کو عاشقِ رسول (صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم) کہتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس حوالے سے شرعی رہنمائی فرما دیجئے۔ والسلام مع الاکرام، عبدالناصر محمد اسحاق
الجواب بعون الملك الوهاب
محبت جب پختہ، مضبوط اور بڑھتی ہے تو اسی کا نام عشق ہے۔ جیسا کہ مصباح المنیر میں ہے: الْعِشْقُ الْإِفْرَاطُ فِي الْمَحَبَّةِ ۔ حوالہ: المصباح المنیر، جلد 2، صفحہ 412، لفظ عشق، المکتبۃ العلمیہ بیروت۔ اسی طرح لسان العرب اور تاج العروس میں ہے۔
شیخ الاسلام والمسلمین امام احمد رضا علیہ الرحمہ علامہ احمد بن محمد منیر اسکندری کی کتاب الانتصاف کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں: اقول : وظاھر ان منشاء الحکم لفظ یعشقنی دون ادعائہ لنفسہ الاتری الی قولہ ان العبارۃ الصحیحۃ یحبنی ثم الظاھر ان تکون العبارۃ بواؤالعطف کقولہ احبہ ویحبنی فیکون الحکم لاجل قولہ یعشقنی والا فلا یظہر لہ وجہ بمجرد قولہ اعشقہ. (میں کہتاہوں) ظاہر یہ ہے کہ منشائے حکم لفظ ""یعشقی"" ہے نہ کہ وہ لفظ جس میں اپنی ذات کے لئے دعوٰی عشق کیا گیا ہے کیا تم اس قول کو نہیں دیکھتے کہ صحیح عبارت ""یحبنی"" ہے پھر ظاہرہے کہ عبارت واؤ عاطفہ کے ساتھ ہے جیسے اس کا قول ہے اُحِبُّہ، وَیُحِبُّنِی یعنی میں اس سے محبت رکھتاہوں اور وہ مجھ سے محبت رکھتاہے پھر حکم اس کے یعشقنی کہنے کی وجہ سے ہے ورنہ اس کے صرف اعشقہ کہنے سے کوئی امتناعی وجہ ظاہر نہیں ہوتی): فالمحبۃ فی اللغۃ اذا تاکدت سمیت عشقا فمن تاکدت محبتہ للہ تعالٰی وظھرت آثارتأکدھا علیہ من استیعاب الاوقات فی ذکرہ وطاعتہ فلا یمنع ان تسمی محبتہ عشقا اذ العشق لیس الا المحبۃ البالغۃ ۔ ترجمہ: محبت بمعنی لغوی جب پختہ اور مؤکد ہوجائے تو اسی کو عشق کا نام دیاجایاتاہے پھر جس کی اللہ تعالٰی سے پختہ محبت ہوجائے اور اس پر پختگی محبت کے آثار ظاہر ہوجائیں (نظر آنے لگیں) کہ وہ ہمہ اوقات اللہ تعالٰی کے ذکر وفکر اور اس کی اطاعت میں مصروف رہے تو پھر کوئی مانع نہیں کہ اس کی محبت کو عشق کہا جائے۔ کیونکہ محبت ہی کا دوسرا نام عشق ہے۔ حوالہ: فتاوى رضویہ، جلد 21، صفحہ 115، رضا فاؤنڈیشن لاہور۔
یہ قانون غلط، بے بنیاد اور عام ذہن رکھنے والوں کو متزلزل کرنے والا ہے کہ "جو ماں بہن کیلئے ذکر نہیں کر سکتے ہیں وہ رسول صلى اللہ علیہ وسلم کیلئے بھی استعمال نہیں کرسکتے"۔ اور اس قانون کا مطلب یہ نکلتا ہےکہ جو ماں بہن کیلئے استعمال کرسکتے ہیں وہی رسول اللہ کیلئے استعمال کریں۔ یہ بھی سراسر غلط ہے۔
ماں بہن کیلئے یہ لفظ اس لئے استعمال نہیں کرتے کہ اس سے ذہن غلط معنى کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ اور جب رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کیلئے استعمال ہوتا ہے تو ذہن غلط معنى کی طرف منتقل نہیں ہوتا بلکہ حقیقی، روحانی محبت و عشق مراد اور متصور ہوتا ہے۔