توریہ كا حكم

04/13/2016 AZT-18403

توریہ كا حكم


سلام!  زندگی کے معاملات میں توریہ کرنا کیسا ہے؟ بغیر کسی خاص وجہ سے، جبکہ کسی صلح کرانا بھی مقصود نہیں ہے، پھر کہنا کہ بہار شریعت میں موجود ہے توریہ کی مثالیں۔  پلیز وضاحت فرمائیں۔

الجواب بعون الملك الوهاب

جی ہاں صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ  نے بہار شریعت میں توریہ کا معنى، حکم اور مثالیں بیان کیں جوکہ درج ذیل ہیں:

"توریہ یعنی لفظ کے جو ظاہر معنی ہیں وہ غلط ہیں مگر اس نے دوسرے معنی مراد لیے جو صحیح ہیں، ایسا کرنا بلاحاجت جائز نہیں اور حاجت ہو تو جائز ہے۔

 توریہ کی مثال یہ ہے کہ تم نے کسی کو کھانے کے لیے بلایا وہ کہتا ہے میں نے کھانا کھالیا۔ اس کے ظاہر معنی یہ ہیں کہ اس وقت کا کھانا کھالیا ہے مگر وہ یہ مراد لیتا ہے کہ کل کھایا ہے یہ بھی جھوٹ میں داخل ہے۔ 

    احیائے حق کے لیے توریہ جائز ہے مثلاً شفیع کورات میں جائدادِ مشفوعہ کی بیع کا علم ہوا اور اس وقت لوگوں کو گواہ نہ بناسکتا ہو تو صبح کو گواہوں کے سامنے یہ کہہ سکتا ہے کہ مجھے بیع کا اس وقت علم ہوا۔ دوسری مثال یہ ہے کہ لڑکی کو رات کو حیض آیا اور اس نے خیار بلوغ کے طور پر اپنے نفس کو اختیار کیا مگر گواہ کوئی نہیں ہے تو صبح کو لوگوں کے سامنے یہ کہہ سکتی ہے کہ میں نے اس وقت خون دیکھا۔ (ردالمحتار)"۔[ حوالہ: بہار شریعت،  جھوٹ کا بیان، جلد3، حصہ16، صفحہ 518، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی]۔ واللہ اعلم ورسولہ اعلم۔ نوٹ: تقیہ اور توریہ میں فرق ہے۔

  • مفتی محمد احسن
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء