انبیاء کرام وأولياء عظام وفات کے بعد اپنی قبور میں زندہ ہیں
انبیاء کرام وأولياء عظام وفات کے بعد اپنی قبور میں زندہ ہیں
الجواب بعون الملك الوهاب
قرآن مجیدمیں بہت سارےمقامات پر حیات ِانبیاءِکرام و حیاتِ اولیاءِ عظام،اشارة النص، دلالة النص اور اقتضا النصسےثابت ہے۔ ان تمام مقامات کاذکرمشکل بھی ہے اور موجبِ طوالت بھی ،اس لئےبغرض اختصار چندآیات پیشِ خدمت ہیں۔
(1)"وَسْـَٔلْ مَنْ اَرْسَلْنَا مِنۡ قَبْلِکَ مِنۡ رُّسُلِنَاۤ اَجَعَلْنَا مِنۡ دُوۡنِ الرَّحْمٰنِ اٰلِـہَۃً یُّعْبَدُوۡنَ "
(سورۃ الزخرف :آیۃ ۴۵)
ترجمہ کنزالایمان :اور ان سے پوچھو جو ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے کیا ہم نے رحمٰن کے سوا کچھ اور خدا ٹھہرائے جن کو پوجا ہو ۔
اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں انبیا ءعلہیم الصلوة والسلام کی حیات پر استدلال کیا گیا ہے۔اوراستدلال دار المنشور (جلد ۲ ص۱۶)، روح المعانی جلد 5ص89، جمل جلد 4ص88، شیخ زادہ جلد7ص298، حقاجی جلد7ص444، تفسیرمظہری جلد8ص353، تفسیر جلالین ص408،تفسیر بغوی جلد4ص141،پرموجود ہے۔
(2)"وَلَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ اَمْوٰتٌ ؕ بَلْ اَحْیَآءٌ وَّلٰکِنۡ لَّا تَشْعُرُوۡن"
ترجمہ کنز الایمان :اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ۔
(سورۃ البقرہ:آیۃ ۱۴۵)
(3)"وَ لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ قُتِلُوۡا فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتًا ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ عِنۡدَ رَبِّہِمۡ یُرۡزَقُوۡنَ . فَرِحينَ بِما ءاتىٰهُمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ وَيَستَبشِرونَ بِالَّذينَ لَم يَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم أَلّا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ . يَستَبشِرونَ بِنِعمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لا يُضيعُ أَجرَ المُؤمِنينَ" (سورۃ آل عمران:آیۃ ۱۶۰تا۱۷۱)
ترجمہ کنز الایمان :اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں شاد ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا اور خوشیاں منارہے ہیں اپنے پچھلوں کی جو ابھی ان سے نہ ملے کہ ان پر نہ کچھ اندیشہ ہے اور نہ کچھ غم ،خوشیاں مناتے ہیں اللہ کی نعمت اور فضل کی اور یہ کہ اللہ ضائع نہیں کرتا اجر مسلمانوں کا ۔
مذکورہ بالا دونوں آیات سے معلوم ہوا کہ شہداء زندہ ہیں ،اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی شہیدہیں
چنانچہ آحادیث مبارکہ میں ہے۔
عَنْ عَبدِ اللَّهِ ، قَالَ : لَأَنْ أَحْلِفَ تِسْعًا ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قُتِلَ قَتْلًا ، أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَحْلِفَ وَاحِدَةً أَنَّهُ لَمْ يُقْتَلْ ، . وَذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ جَعَلَهُ نَبِيًّا ، وَاتَّخَذَهُ شَهِيدًا "
[مسند أحمد بن حنبل » مُسْنَدُ عبد الله بن مسعود رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى ...رقم الحديث: 3742 ؛ المستدرك على الصحيحين: 3/57، 4332 ؛ دلائل النبوة للبيهقي:3102]
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی الله انہ سے روایت ہے کہ : مجھے رسول اللہ ﷺ کے قتل پر نو (٩) قسمیں کھانا اس سے زیادہ پسند ہے کہ ان کے قتل نہ ہونے پر ایک (١) قسم کھاؤں، اس لئے کہ الله نے آپ کو نبی بھی بنایا اور شہید بھی.
أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرٍ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى الأَشْقَرُ ، ثنا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى الْمَرْوَزِيُّ ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، ثنا عَنْبَسَةُ ، ثنا يُونُسُ ، عَنِابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : قَالَ عُرْوَةُ : كَانَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا تَقُولُ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ فِي مَرَضِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ : " يَا عَائِشَةُ ، إِنِّي أَجِدُ أَلَمَ الطَّعَامِ الَّذِي أَكَلْتُهُ بِخَيْبَرَ ، فَهَذَا أَوَانُ انْقِطَاعِ أَبْهَرِي مِنْ ذَلِكَ السُّمِّ " . هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ عَلَى شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ ، وَقَدْ أَخْرَجَهُ الْبُخَارِيُّ ، فَقَالَ : وَقَالَ يُونُسُ .
[المستدرك على الصحيحين: 3/56، 4331 ؛ السنن الكبرى للبيهقي: 10/9، 18146 ؛ دلائل النبوة للبيهقي: 3101]
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے مروی ہے کہ جس بیماری میں رسول الله ﷺ کا انتقال ہوا، اس میں آپ فرماتے تھے کہ مجھے اس کھانے کا زہر جو میں نے خیبر میں کھایا تھا برابر محسوس ہوتا رہا یہاں تک کہ اب وہ وقت قریب آگیا ہے کہ اس زہر سے میری شہہ رگ کٹ جاۓ.
علامہ جلال الدین سیوطیؒ الشافعی لکھتے ہیں۔
" قال البيهقي في كتاب الاعتقاد : الأنبياء بعدما قبضوا ردت إليهم أرواحهم فهم أحياء عند ربهم كالشهداء ، وقال القرطبي في التذكرة في حديث الصعقة نقلا عن شيخه : الموت ليس بعدم محض ، وإنما هو انتقال من حال إلى حال ، ويدل على ذلك أن الشهداء بعد قتلهم وموتهم أحياء يرزقون فرحين مستبشرين وهذه صفة الأحياء في الدنيا ، وإذا كان هذا في الشهداء فالأنبياء أحق بذلك وأولى، وقد صح أن الأرض لا تأكل أجساد الأنبياء ، وأنه صلى الله عليه وسلم اجتمع بالأنبياء ليلة الإسراء في بيت المقدس وفي السماء ، ورأى موسى قائما يصلي في قبره وأخبر صلى الله عليه وسلم بأنه يرد السلام على كل من يسلم عليه ، إلى غير ذلك مما يحصل من جملته القطع بأن موت الأنبياء إنما هو راجع إلى أن غيبوا عنا بحيث لا ندركهم وإن كانوا موجودين أحياء ، وذلك كالحال في الملائكة فإنهم موجودون أحياء ولا يراهم أحد من نوعنا إلا من خصه الله بكرامته من أوليائه ، انتهى" [أنباء الأذكياء في حياة الانبياء، الحاوي للفتاوي للسيوطي]
ترجمہ: امام بیہقی نے "کتاب الاعتقاد" میں بیان کیا ہے کہ انبیاء علیہ السلام کی روحیں وفات کے بعد پھر ان کی اجسام میں واپس کردی گئیں چنانچہ وہ اپنے رب کے پاس شہیدوں کی طرح زندہ ہیں. امام قرطبی نے "تذکرہ" میں حدیث صعقه کے متعلق اپنے شیخ سے یہ قول نقل کیا ہے کہ "موت عدم محض کو نہیں کہتے بلکہ وہ خاص ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے کا نام ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ شہید لوگ اپنے قتل وموت کے بعد زندہ رہتے ہیں، روزی دیے جاتے ہیں ، ہشاش بشاش رہتے ہیں اور یہ صفت دنیا میں زندوں کی ہے اور جب یہ حال شہداء کا ہے تو انبیاء علیہ السلام بدرجہ اولیٰ اس کے مستحق ہیں. یہ بات بھی پایۂ صحت کو پہنچ چکی ہے کہ زمین انبیاء کرامؑ کے اجسام کو نہیں کھاتی، نیز آنحضرتؐ نے شب معراج میں انبیاءؑ سے بیت المقدس اور آسمان پر ملاقات کی اور حضرت موسیٰؑ کو دیکھا کہ اپنی قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور خود آپؐ نے فرمایا کہ"جو شخص مجھ پر سلام بھیجے گا ، میں اس کو اس کے سلام کا جواب دوں گا". اس کے علاوہ اور بھی روایات ہیں. ((ان سب کے مجموعہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انبیاءؑ کی موت کا مآل صرف یہ ہے کہ وہ ہم سے اس طرح غائب ہیں کہ ہم ان کو نہیں پاسکتے گو زندہ وموجود ہیں اور ان کا حال فرشتوں کے جیسا ہے کہ وہ زندہ وموجود ہیں ہم میں سے کوئی ان کو نہیں دیکھتا بجز ان اولیاء کرامؒ کے جن کو الله تعالیٰ نے اپنی کرامات کے ساتھ مخصوص فرمایا ہے)).
آپؒ یہ بھی فرماتے ہیں :
حياة النبي صلى الله عليه وسلم في قبره هو وسائر الأنبياء معلومة عندنا علما قطعيا لما قام عندنا من الأدلة في ذلك وتواترت [به] الأخبار ، وقد ألف البيهقي جزءا في حياة الأنبياء في قبورهم ، فمن الأخبار الدالة على ذلك
ترجمہ: نبی اقدس (صلی الله علیہ وسلم) کی اور دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کی قبر میں حیات ہونا ہمیں یقینی طور پر معلوم ہے، اس لئے کہ ہمارے نزدیک اس پر دلائل قائم ہیں اور اس مسئلہ پر اور اس مسئلہ پر دلالت کرنے والی روایات ہمارے نزدیک متواتر ہیں.
اوراس آیت کےتحت حافظ ابن حجر عسقلانی ؒ لکھتے ہیں ۔
و اذا ثبت انہم احیاءمن حیث النقل فانہ یقولہ من حیث النظر کون الشہداء احیاء بنص القرآن والانبیاء افضل من الشھداء (فتح الباری جلد 6ص379)
(4)وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللہَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا ( سورۃ النساء :آیۃ 64)
ترجمہ کنزالایمان :اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللّٰہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شِفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں ۔
اس آیت کی تفسیر میں امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عن علی رضی اللہ عنہ قال قدم علینا اعرابی بعد مادفنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بثلاثۃ ایام فرمی بنفسہ علی قبر رسول ،وحثا علی راسہ من ترابہ فقال قلت یارسول اللہ: فسمعنا قولک ووعیت عن اللہ فوعیناعنک وکان فیہا انزل اللہ علیک وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ الخ وقد ظلمت نفسی وجئتک تستغفرلی، فنودی من القبر انہ قد غفر لک (الجامع الاحکام القرآن ج5ص255)
یعنی حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کے دفن کرنے کے 3 دن بعد ایک دیہاتی آیا اور قبر پر گر کر سر پر مٹی ڈال کر عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ،ہم نے آپ ﷺ کی بات سنی آپ ﷺ نے اللہ تعالی سے اور ہم نے آپ ﷺ سے محفوظ کیا اور آپ ﷺ پر "وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ الخ" نازل ہوئی اور یقیناً میں نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے اور آپ ﷺ کے پاس آیا ہوں کہ آپ ﷺ میرے لیے استغفار کریں تو قبر مبارک سے آواز آئی کہ تیری بخشش کردی گئی۔ حضرت علیؓ فرماتے ہیں کہ روضہ منورہ سے آنے والی آواز وہاں پر موجود سب لوگوں نے سنی۔ حضرت علیؓ کی یہ روایت علامہ ابو حسان اندلسیؒ، البحرالمحیط جلد 1ص283 ، علامہ سمہودی نے وفا الوفا میں خلاصتہ الوفا ص51، او علامہ قرطبیؒ نے اپنی تفسیر جلد1ص265، میں نقل فرماتے ہیں۔ اس کے علاوہ تفسیر معارف القرآن، تفسیر ابن کثیر جلد3ص142، تفسیر مدارک جلد1ص265، میں بھی درج ہے۔
اسی طرح اسی آیت کے تحت علامہ ابن کثیرؒ نے علامہ عتبیؒ کا واقعہ درج کیا ہے کہ ایک شخص نے آکر قبر مبارک پر استشفاع کیا توخواب میں علامہ عتبیؒ کو نبی علیہ السلام کی زیارت ہوئی کہ اس شخص کو بشارت دے دو کہ اللہ تعالی نے اس کی مغفرت فرمادی۔(تفسیر ابن کثیر ج2ص315))
(5)"مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنۡ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنۡ رَّسُوۡلَ اللہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ کَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمًا "
ترجمہ کنزالایمان :محمّد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
اس آیت کی تفسیر میں علامہ آلوسی رحمہ اللہ ،علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ کا یہ قول بلا نکیر نقل فرماتے ہیں: فحصل من مجموع ھذاالکلام النقول والاحادیث ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم حی بجسدہ وروحہ (ج22ص36)
یعنی اس تمام کلام سے یہ بات حاصل ہوئی کہ نقول واحادیث کے مطابق نبی علیہ السلام اپنے جسد اور روح کے ساتھ زندہ ہیں۔ پھر آگے مزید لکھتے ہیں:
والمرئی اماروحہ علیہ الصلاۃ والسلام التی ہی اکمل الارواح تجردا وتقدسابان تکون قد تطورت وظہرت بصورۃ مرئیۃ بتلک الرویۃ مع بقاء تعلقہا بجسدہ الشریف الحی فی القبر السامی المنیف (روح المعانی ج22ص37)
جس کا خلاصہ یہ ہے کہ نظر آنے والی یا تو روح مقدس ہوگی جو کہ تمام روحوں سے مقدس ہے۔ لیکن اس کاتعلق قبر شریف میں جسد مبارک سے ہوگا جو کہ زندہ ہے۔ مزید ارقام فرماتے ہیں:
وقد الف البیہقی جزء فی حیاتہم فی قبورھم واوردہ فیہ عدۃ اخبار(روح المعانی ج22ص 38)
یعنی امام بیہقیؒ نے انبیاء کرام علیہم السلام کے اپنی قبور میں زندہ ہونے پر ایک رسالہ لکھا ہے اور اس میں بہت سی احادیث ذکر کی ہیں۔مزید لکھتے ہیں :
ثم ان کانت تلک الحیوۃ فی القبر وان کانت یترتب علیہا بعض مایترتب علی الحیوۃ فی الدنیا المعروفۃ لنا من الصلاۃ والاذان والاقامۃ ورد السلام المسموع۔ (روح المعانی ج22ص 38)
جس کا حاصل یہ ہے کہ قبر کی اس زندگی پر دنیا والے کچھ احکام لگتے ہیں جیسے نماز، اذان ،اقامت اور سنے ہوئے سلام کا جواب دینا۔
(6) فَضَرَبْنَا عَلَى آذَانِهِمْ فِي الْكَهْفِ سِنِينَ عَدَدًا (سورۃ الکھف: آیۃ11)
اس آیت کی تفسیر میں امام رازیؒ نے کرامت کی بحث ذکر کی ہے، اور اسی میں یہ بھی درج کیا:
اما ابوبکر فمن کراماتہ انہ لما حملت جنازتہ الی باب قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ونودی: السلام علیک یا رسول اللہ ھذا ابوبکر بالباب فاذا الباب قد انفتح واذا بہاتف یہتف من القبر :''ادخلوا الحبیب الی الحبیب''
(مفاتیح الغیب المعروف تفسیر کبیر ج7ص433)
یعنی حضرت ابوبکرؓ کی کرامات میں سے یہ ہے کہ جب ان کا جنازہ روضہ رسول ﷺ کے دروازے پر اٹھاکر لایا گیا اور "السلام علیک یارسول اللہ" عرض کرکے کہا گیا کہ یہ ابوبکر دروازے پر حاضر ہیں تو دروازہ کھل گیا اور قبر مبارک سے آواز دینے والے کی آواز آئی کہ دوست کو دوست کے پاس داخل کردو۔
(7)وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَنْ تَنْكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِنْ بَعْدِهِ أَبَدًا (الاحزاب :53)
کی تفسیر میں علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ لکھتے ہیں:
قلت وجاز ان يكون ذلك لاجل ان النبي صلى اللّه عليه وسلم حىّ فى قبره ولذلك لم يورث ولم يتئم أزواجه عن أبى هريرة قال قال رسول اللّه صلى اللّه عليہ وسلم من صلى علىّ عند قبرى سمعته ومن صلّى علىّ نائيا أبلغته رواه البيهقي فى شعب الايمان. (تفسیر مظہری ج7ص408)
یعنی میں [مفسر علام رحمہ اللہ]کہتا ہوں کہ ازواج مطہرات سے نکاح حرام ہونے کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں۔اس لیے آپ ﷺ کے مال کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بیوہ نہیں ہوتیں۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا کہ جو آدمی میری قبر کے نزدیک مجھ پر درود عرض کرے گا میں اسے بنفس نفیس سنوں گااور جو دور سے پڑھے گا تو وہ مجھے پہنچایا جائیگا۔اس حدیث کو امام بیہقیؒ نے شعب الایمان میں روایت کیا ہے۔
(8) رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اِبْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَا حُسَیْنُ بْنُ عَلِیِّ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ جَابِرٍ عَنْ اَبِیْ الْاَشْعَثِ الصَّنْعَانِیْ عَنْ اَوْسِ بْنِ اَوْسٍ قَالَ؛ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اللّٰہَ حَرَّمَ عَلَی الْاَرْضِ اَنْ تَاکُلَ اَجْسَادَ الْاَنْبِیَائِ۔
)مصنف ابن ابی شیبۃ ج 2 ص398 ، سنن نسائی ج1 ص 203، 204 (
ترجمہ: حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہما ، فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ نے زمین پر حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کے اجساد حرام کر دیے ہیں ۔‘‘ (زمین ان کو نہیں کھاتی)
(9)قَالَ الْاِمَامُ اَبُوْ یَعْلٰی اَحْمَدُ بْنُ عَلِی الْمُوْصِلِیِّ حَدَّثَنَا اَبُوْ الْجَھْمِ الْاَرْزَقُ بْنُ عَلِیٍّ حَدَّثَنَا یَحْییٰ بْنُ اَبِیْ بُکَیْرٍ حَدَّثَنَا الْمُسْتَلِمُ بْنُ سَعِیْدٍ عَنِ الْحَجَّاجِ عَنْ ثَابِتِ الْبَنَانِیِّ عَنْ اَنْسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ؛ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَ لْاَنْبِیَآئُ اَحْیَائٌ فِیْ قُبُوْرِھِمْ یُصَلُّوْنَ ۔
)مسند ابی یعلی الموصلی ص 658 حدیث نمبر 3425(
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نمازیں پڑھتے ہیں ۔‘‘
(10)رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ مُحَمَّدُ بْنُ یَزِیْدِ بْنِ مَاجَۃَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَوَادِ الْمِصْرِیٍ ثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ وَھْبٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ عَنْ سَعِیْدِ بْنِ اَبِیْ ھَلَالٍ عَنْ زَیْدِ بْنِ اَیْمَنَ عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ نَسِیٍّ عَنْ اَبِی الدَّرْدَائِ قَالَ ؛ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَنَبِیُّ اللّٰہِ حَیٌّ یُرْزَقُ۔
)سنن ابن ماجۃ ج 1 ص 118(
ترجمہ: حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اسے رزق دیا جاتا ہے۔‘‘
(11)رَوَی الْاِمَامُ مُسْلِمُ بْنُ الْحَجَّاجِ حَدَّثَنَا ھَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ وَ شَیْبَانُ بْنُ فَرُوْخٍ قَالَا نَا حَمَّادُ بْنُ سَلْمَۃَ عَنْ ثَابِتِ الْبَنَانِیِّ وَ سُلَیْمَانِ التَّیْمِیِّ عَنْ اَنْسِ بْنِ مَالِکٍ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ : اَتَیْتُ (وَ فِیْ رِوَایِۃِ ھَدَّابٍ) مَرَرْتُ عَلٰی مُوْسٰی لَیْلَۃَ اُسْرِیَ بِیْ عِنْدَ الْکَثِیْبِ الْاَحْمَرِ وَھُوَ قَائِمٌ یُّصَلِّیْ فِیْ قَبْرِہٖ۔
)صحیح مسلم ج 2 ص 268(
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ معراج کی رات میرا گذرحضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر پرہوا جو سرخ ٹیلے کے قریب ہے میں نے ان کو دیکھا کہ وہ اپنی قبر میں کھڑے ہوکر نماز پڑھ رہے ہیں ۔‘‘
(12)رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْدَاوٗدَ حَدَّثَنَا اَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ قَرَأْتُ عَلٰی عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ نَافِعٍ قَالَ اَخْبَرَنِیْ اِبْنُ اَبِیْ ذِئْبٍ عَنْ سَعِیْدِ الْمَقْبَرِیْ عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ؛ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَلُّوْا عَلَیَّ فَاِنَّ صَلٰوتَکُمْ تَبْلُغُنِیْ حَیْثُ کُنْتُمْ
)سنن ابی داؤد ج 1 ص 295 (
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مجھ پر درود بھیجو کیونکہ تم جہاں بھی ہو، تمہارا درود میرے پاس پہنچایا جاتاہے ۔‘‘
(13)قَالَ الْحَافِظُ اَبُو الشَّیْخِ الْاَصْبَھَانِیْ فِیْ کِتَابِ الصَّلَاۃِ حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنِ اَحْمَدِ الْاَعْرَجَ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ الصَّبَاحِ حَدَّثَنَا اَبُوْ مُعَاوَیَۃَ حَدَّثَنَا الْاَ عْمَشُ عَنْ اَبِیْ صَالِحٍ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ قَالَ ؛قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِیْ سَمِعْتُہٗ وَمَنْ صَلّٰی عَلَیَّ مِنْ بَعِیْدٍ اُعْلِمْتُہٗ ۔
)جلاء الافہام ؛ابن قیم ص 19 وفی نسخۃ ص 25 حدیث نمبر 25(
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جس نے میری قبر کے پاس درود پڑھا تو میں اسے خود سنتا ہوںاور جس نے مجھ پر دُور سے درود پڑھا تو وہ (بواسطہ فرشتوں کے ) مجھے بتلا دیا جاتا ہے ۔‘‘
(14)قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْدَاوٗدَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ نَا اَلْمُقْرِیُّ نَا حَیْوَۃُ عَنْ اَبِیْ صَخْرَۃَ حُمَیْدِ بْنِ زَیَّادٍ عَنْ یَزِیْدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ قَسِیْطٍ عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَا مِنْ اَحَدٍ یُسَلِّمُ عَلَیَّ اِلَّا رَدَّ اللّٰہُ عَلَیَّ رُوْحِیْ حَتّٰی اَرُدَّعَلَیْہِ السَّلَامَ۔
)سنن ابی داؤد ج 1 ص 294 (
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جوشخص مجھ پر سلام بھیجتاہے تو اللہ تعالی میری روح کو میری طرف متوجہ کر دیتے ہیں یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں۔‘‘
(15)رَوَی الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اِبْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ حَدَّثَنَاوَکِیْعٌ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ زَاذَانَ عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ قَالَ ؛ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ لِلّٰہِ مَلَآ ئِکَۃً سَیَّاحِیْنَ فِی الْاَرْضِ یُبَلِّغُوْنِیْ عَنْ اُمَّتِیْ اَلسَّلاَمَ ۔
)مصنف ابن ابی شیبۃ ج 2 ص 399 (
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالی کی طرف سے کچھ فرشتے مقرر ہیں جو زمین میں چکر لگاتے ہیں اور میری امت کا سلام مجھ کو پہنچاتے ہیں۔‘‘
مذکورہ احادیث سے معلوم ہو ا کہ انبیاء کرام علیھم السلام اور نبی کریم ﷺاپنی قبورمیں زندہ ہیں
(16)قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِالرَّحْمٰنِ السَّخَاوِیُّ الشَّافِعِیُّ:وَنَحْنُ نُؤْمِنُ وَنُصَدِّقُ بِاَنَّہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَیٌّ یُرْزَقُ فِیْ قَبْرِہٖ وَاَنَّ جَسَدَہُ الشَّرِیْفَ لَا تَاکُلُہُ الْاَرْضُ، وَالْاِجْمَاعُ عَلٰی ھٰذَا۔
)القول البدیع ،علامہ سخاوی ص 172(
ترجمہ : علامہ سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ ہم یقین رکھتے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں کہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر میں زندہ ہیں ، آپ کو رزق دیا جاتا ہیں اور آپ کے جسد شریف کو زمین نے نہیں کھایا اور اس پر اجماع ہے ۔‘‘
(17)قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ اِبْنُ حَجَرٍ اَلْھَیْثَمِیْ:فَنَحْنُ نُؤْمِنُ وَنُصَدِّقُ بِاَنَّہٗ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَیٌّ یُرْزَقُ وَاَنَّ جَسَدَہُ الشَّرِیْفَ لَا تَاکُلُہُ الْاَرْضُ، وَالْاِجْمَاعُ عَلٰی ھٰذَا۔
)الدرالمنضود فی الصلوۃ علی صاحب المقام المحمود ، ابن حجر ہیثمی ص 95 (
ترجمہ: علامہ ابن حجر ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’ ہم یقین رکھتے ہیں اور تصدیق کرتے ہیں کہ بے شک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں ، رزق دیے جاتے ہیں اور آپ کے جسد شریف کو زمین نہیں کھاتی اور اسی پر اجماع ہے ۔‘‘
(18)شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’بباید حیات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام متفق علیہ است و ہیچ کس را دروے خلاف نیست ۔‘‘
)اشعّۃ اللمعات ج 1 ص 574(
(19) قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ بَدْرُ الدِّیْنِ مَحْمُوْدُ بْنُ اَحْمَدَ اَلْعَیْنِیْ: مَنْ اَنْکَرَ الْحَیَاۃَ فِی الْقَبْرِ وَھُمُ الْمُعْتَزِلَۃُ وَمَنْ نَحَا نَحْوَھُمْ ، وَاَجَابَ اَہْلُ السُّنَّۃِ عَنْ ذٰلِکَ ۔
)عمدۃ القاری ،علامہ عینی ج 11 ص 703(
ترجمہ: حضرت علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’جن لوگوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی زندگی کا انکار کیا ہے وہ معتزلہ اور ان کے ہم عقیدہ لوگ ہیں۔ اہل السنت والجماعت نے ان کے (وساوس )کے جوابات دیے ہیں (
خلاصہ کلام یہ ہے کہ انبیاء کرام وأولياء عظام وفات کے بعد اپنی قبور میں زندہ ہیں۔ واللہ تعالیٰ و رسولہ اعلم