بارہ ربیع الاول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات یا ولادت؟
بارہ ربیع الاول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات یا ولادت؟
باره ربيع الاول رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی وفات یا ولادت ہے؟
الجواب بعون الملك الوهاب
حضور پُر نورامام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت مفتی بہ قول کے مطابق12ربیع الاول ہے۔
امام اہلسنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:" سائل نے یہاں تاریخ سے سوال نہ کیا اس میں اقوال مختلف ہیں ۔دو ،آٹھ ،دس ،بارہ ،سترہ ،اٹھارہ، بائیس ،سات قول ہیں مگر اشہر و اکثر ماخوذ ومعتبر بارھویں ہے مکہ معظمہ میں ہمیشہ اسی تاریخ مکان مولد اقدس(ولادت ِپاک کی جگہ) کی زیارت کرتے ہیں کمافی المواھب والمدارج( جیسا کہ مواہب لدنیہ اور مدارج النبوۃ میں ہے) اور خاص اس مکان جنت نشان میں اسی تاریخ مجلس میلاد مقدس ہوتی ہے"۔ [فتاوی رضویہ، جلد:26، صفحہ:411، رضا فاؤنڈیشن لاہور]۔
اور وصال پاک کے بارے میں تحقیقی قول یہ ہے کہ 12 ربیع الاول نہیں ۔بلکہ اس میں مختلف اقوال ہیں کوئی یکم کا قول کرتا ہے اور کوئی8 کا اور کوئی اٹھائیس کا مطلب یہ ہے کہ اقوال مختلف ہیں اور اس میں کوئی نص قطعی بیان نہیں کی بلکہ تاریخ کا تعلق حساب اور گنتی سے ہے ۔
امام اہل سنت امام احمد رضاخان علیہ رحمۃ الرحمن اپنے عطایا النبویہ فی الفتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:" تفصیل ِمقام وتوضیح مرام یہ ہے کہ وفات ِاقدس ماہ ربیع الاول شریف روز دو شنبہ( پیرکے دن) میں واقع ہوئی اس قدر ثابت ومستحکم ویقینی ہے جس میں اصلاً جائے نزاع نہیں ۔۔۔ ادھر یہ بلا شبہہ ثابت کہ اس ربیع الاول سے پہلے جو ذی الحجہ تھا اس کی پہلی روز پنج شنبہ( بدھ) تھی کہ حجۃ الوداع شریف بالاجماع روزِجمعہ ہے ۔تحقیق یہ ایسی صحیح حدیثوں سے ثابت ہو چکا ہے جن کا کوئی مزاحم نہیں لہذا ہمیں اس کی تفصیل میں طویل کلام کی کوئی ضرورت نہیں ۔اور جب ذی الحجۃ 10 ھ کی29 روز پنج شنبہ تھی تو ربیع الاول 11 ھ کی12 کسی طرح روز دو شنبہ نہیں آتی کہ اگر ذی الحجہ، محرم، صفر تینوں مہینے30 کے لئے جائیں تو غرہ ربیع الاول روز چار شنبہ ہو تا ہے اور پیر کی چھٹی اور تیرھویں، اور اگر تینوں 29 کے لیں تو غرہ روز یکشنبہ پڑتا ہے اور پیر کی دوسری اور نویں، اور اگر ان میں کوئی سا ایک ناقص اور باقی دو کامل لیجئے تو پہلی سہ شنبہ کی ہوتی ہے اور پیر کی ساتویں چودھویں، اور اگر ایک کامل اور دو ناقص مانئے تو پہلی پیر کی ہوتی ہے پھر پیر کی آٹھویں پندرھویں، غرض بارھویں کسی حساب سے نہیں آتی ،اور ان چار کے سوا پانچویں کوئی صورت نہیں"۔ [فتاوی رضویہ، جلد:26، صفحہ:418، رضا فاؤنڈیشن لاہور]۔