اولیاءِ کرام کی قبر پر گنبد بنانا اور قبر پکی کرنا کیسا؟
اولیاءِ کرام کی قبر پر گنبد بنانا اور قبر پکی کرنا کیسا؟
مسلم : (969) میں ہے کہ ابو ہیّاج اسدی کہتے ہیں کہ : مجھے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے کہا: "کیا میں تمہیں ایسے کام کیلئے ارسال نہ کروں جس کام کیلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ارسال کیاتھا؟[مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا:](کسی بھی مورتی کو مٹائے بغیر اور کسی بھی اونچی قبر کو برابر کئے بغیر مت چھوڑنا(" 1۔ اس ضمن میں انبیاء کرام علیہم السلام ، صحابۂ کرام علیہم الرضوان اور مشائخِ عظام رحمہم اللہ کی قبروں کو اوپر سے پختہ کرنا کیسا؟ 2۔ گنبد بنانا کیسا؟ 3۔ کیا یہ حکم صرف مشرکین کی قبروں کے لیے تھا ؟ اس ضمن میں بخاری شریف کی جو حدیث ہے ، برائے مہربانی اس کی سند ، متن اور شرح ارشاد فرمادیجئے۔ اللہ پاک آپ کو اجر عظیم عطا فرمائے۔آمین (محمد جاوید اقبال عطاری)
الجواب بعون الملك الوهاب
انبیاء کرام اور بزرگانِ دین کی قبروں کو اوپر سے پختہ کرنا اور قبر کے اوپر گنبد بنانا مباح ومستحسن ہے۔ جن کے درج ذیل دلائل ہیں:
(1): رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی قبر انور آپ علیہ السلام کے حجرے مبارک میں تھی پھرحضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کی موجودگی میں حضور علیہ السلام کی قبر پر ایک مضبوط عمارت بنوائی۔ حوالہ: خلاصۃ الوفا باخباردار المصطفی، الباب الرابع، الفصل العاشر، جلد 2، صفحہ 125، مطبوعہ بیروت۔
(2): علامہ ملا علی قاری تحریر فرماتے ہیں: وَقَدْ أَبَاحَ السَّلَفُ الْبِنَاءَ عَلَى قَبْرِ الْمَشَايِخِ وَالْعُلَمَاءِ وَالْمَشْهُورِينَ لِيَزُورَهُمُ النَّاسُ، وَيَسْتَرِيحُوا بِالْجُلُوسِ فِيهِ . ترجمہ: پہلے علماء نے مشائخ اور علماء کی قبروں پر عمارات بنانا جائز فرمایا ہے تاکہ ان کی لوگ زیارت کریں اور وہاں بیٹھ کر آرام کریں۔ حوالہ: مرقاۃ، کتاب الجنائز، باب دفن المیت، جلد 3، صفحہ 1217، دار الفكر، بيروت – لبنان۔
(3): علامہ ابن عابدین شامی تحریر فرماتے ہیں: رُوِيَ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا - لَمَّا مَاتَ بِالطَّائِفِ صَلَّى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَنَفِيَّةِ، وَكَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا، وَجَعَلَ لَهُ لَحْدًا وَأَدْخَلَهُ الْقَبْرَ مِنْ قِبَلِ الْقِبْلَةِ، وَجَعَلَ قَبْرَهُ مُسَنَّمًا وَضَرَبَ عَلَيْهِ فُسْطَاطًا. ترجمہ:روایت ہے کہ جب حضرت ابن عباس کی وفات ہوئی تو حضرت محمد بن حنفیہ نے نماز پڑھائی، چار تکبیر کہیں، ان کی قبر کو لحد بنایا، قبر میں قبلہ کی طرف سے داخل کیا، قبر ڈھلوان والی بنوائی اور ان کی قبر پر قبہ بنوایا۔ حوالہ: بدائع الصنائع، کتاب الجنائز، فصل فی احکام الشہید، جلد 1، صفحہ 230، دار الكتب العلمية، بيروت – لبنان۔
یہ تینوں دلیلیں قبور کے اوپر گنبد اور مزارات بنانے پر دلالت کرتی ہیں۔
ابو ہیاج اسدی اور اس جیسی روایات مشرکین کی قبور کو گرانے کے بارے میں ہیں۔
بخاری شریف میں ہے: فَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقُبُورِ المُشْرِكِينَ، فَنُبِشَتْ. ترجمہ: حضور علیہ السلام نے مشرکین کی قبروں کا حکم دیا پس وہ اکھیڑ دی گئیں۔ حوالہ: صحیح البخاری، کتاب الصلاۃ، باب نبش قبر المشرکین، حدیث(428)، جلد 1، صفحہ 93، دار طوق النجاة بیروت۔
امام ابن حجر عسقلانی تحریر فرماتے ہیں: أَيْ دُونَ غَيْرِهَا مِنْ قُبُورِ الْأَنْبِيَاءِ وَأَتْبَاعِهِمْ لِمَا فِي ذَلِكَ مِنَ الْإِهَانَةِ لَهُمْ. ترجمہ: یعنی ماسوا انبیاء اور ان کے متبعین کے کیونکہ ان کی قبریں گرانے میں ان کی اہانت ہے۔ حوالہ: فتح الباری، کتاب الصلاۃ، باب نبش قبر المشرکین، جلد 1، صفحہ 524، دار المعرفة - بيروت۔