اذان سے قبل صلاۃ وسلام کس صحابی نے پڑھا؟
اذان سے قبل صلاۃ وسلام کس صحابی نے پڑھا؟
اذان سے پیلے کون سے صحابی نے صلوٰۃ و سلام پڑھا ہے ؟ (رضوان شاہ ، لیاری)
الجواب بعون الملك الوهاب
(1): حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:« كَانَ بِلَالٌ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ الصَّلَاةَ قَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ ». ترجمہ: حضرت بلال رضی اللہ عنہ نماز کی اقامت یوں فرماتے : اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! آپ پر سلامتی ہو، اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں۔ حوالہ: المعجم الاوسط، باب المیم، من اسمہ المقداد، حدیث(8910)، جلد 8، صفحہ 372، دار الحرمين – القاهرة۔
یعنی حضرت بلال رضی اللہ عنہ حضو ر اقدس کی ذات مبارکہ پر تکبیر سے قبل سلام بھیجا کرتے تھے، تو اذان سے قبل صلاۃ وسلام بھیجنا بطریقہ اولی سنت ہوا۔
(2): امام نووی علیہ الرحمہ کے حوالے سے امام زین الدین الملیباری الہندی لکھتے ہیں: وتسن الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم قبل الإقامة على ما قاله النووي في شرح الوسيط واعتمده شيخنا ابن زياد وقال: فقال الشيخ الكبير البكري أنها تسن قبلهما . ترجمہ: تکبیر سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر درود بھیجنا سنت ہے، جس بنیاد پر امام نووی نے شرح الوسیط میں فرمایا ہے۔ اور اسی پر ہمارے شیخ ابن زیاد نے اعتماد کیا ہے۔ اور شیخ ابن زیاد فرماتے ہیں کہ شیخ کبیر البکری نے فرمایا: اذان اور اقامت سے قبل درود پڑھنا سنت ہے۔ حوالہ: فتح المعين بشرح قرة العين، باب الصلاۃ، فصل فی الاذان والاقامۃ، صفحہ 157، دار بن حزم، بیروت۔
(3): قرآن پاک میں اللہ تعالی نے فرمایا: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا . ترجمہ: اے ایمان والو! تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجو۔ (سورہ احزاب، آیت 56)۔
قرآن پاک کی یہ آیت مطلق ہے یعنی جب چاہو حضور علیہ السلام پر درود وسلام بھیجو، چاہے اذان سے قبل یا اذان کے بعدیا کسی اور وقت۔ اور جو اس سے منع کرے وہ منع کی دلیل پیش کرے۔
(4): حدیث مبارکہ میں ہے :«كُلُّ أَمْرٍ لَمْ يُبْدَأْ فِيهِ بِحَمْدِ اللَّهِ وَالصَّلَاةِ عَلَيَّ فَهُوَ أَقْطَعُ أَبْتَرُ مَمْحُوقٌ مِنْ كُلِّ بَرَكَةٍ» . ترجمہ: ہر وہ کام جس کی ابتداء اللہ تعالی کی حمد اور درود سے نہ کی جائے وہ کام بے برکت ہوتا ہے۔ حوالہ: الإرشاد فی معرفۃ علماء الحديث لأبی یعلی الخلیلی( المتوفی 446ھ), من قسم ابی الوليد ہشام بن عمار، حدیث(119)، جلد 1، صفحہ 449، مكتبۃ الرشد – الرياض۔
اور اذان بہترین کام اور شعارِ اسلام سے ہے تو اس سے قبل صلاۃ وسلام پڑھنا بھی سنت اور باعثِ برکت ہے۔
(5): حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ جب اذان دیتے تو اذان سے قبل قریش کے بار ے میں دعا کیا کرتے تھے، جیسا کہ ابو داؤد شریف میں ہے: عَنْ امْرَأَةٍ مِنْ بَنِي النَّجَّارِ قَالَتْ: كَانَ بَيْتِي مِنْ أَطْوَلِ بَيْتٍ حَوْلَ الْمَسْجِدِ وَكَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ عَلَيْهِ الْفَجْرَ فَيَأْتِي بِسَحَرٍ فَيَجْلِسُ عَلَى الْبَيْتِ يَنْظُرُ إِلَى الْفَجْرِ، فَإِذَا رَآهُ تَمَطَّى، ثُمَّ قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَحْمَدُكَ وَأَسْتَعِينُكَ عَلَى قُرَيْشٍ أَنْ يُقِيمُوا دِينَكَ» قَالَتْ: ثُمَّ يُؤَذِّنُ . ترجمہ:بنی نجار کی ایک عورت سے روایت ہے وہ کہتی ہیں کہ مسجد کے قریب میرا گھر تھا، حضرت بلال فجر کی اذان دیتے تھے تو فجرکے وقت تشریف لاتے تو گھر پر بیٹھے رہتے حتی کہ فجر طلوع ہو جاتی تو یہ دعا کرتے"اے اللہ میں تیری حمد کرتا ہوں میں تجھ سے مدد طلب کرتا ہوں قریش پر کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں" پھر اذان دیتے۔ حوالہ: سنن ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب الاذان، حدیث(519)، جلد 1، صفحہ 143، المكتبة العصرية، صيدا – بيروت۔
جب اذان سے قبل قریش کیلئے دعا کرنا جائز ہے تو روحِ کائنات وجانِ ایمان حضور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات پر درود وسلام کا نذرانہ پیش کرنا بطریقہ اولی جائز ہے۔
(6): بہت سے ایسے مسائل واعمال ہیں جو ہمارے ہاں رائج ہیں مگر ان کی سند صحابہ سے نہیں ملتی۔ لہذا ہر عمل کےجواز کیلئے صحابہ کرام سے اس کی سند ضروری نہیں ہے۔