بینک کی طرف سے منافع ملتا ہے کیا یہ منافع شرعًا جائز ہے؟

03/11/2019 AZT-27126

بینک کی طرف سے منافع ملتا ہے کیا یہ منافع شرعًا جائز ہے؟


مفتی صاحب یہ جو لوگ پیسے بینک میں فیکس ڈپازٹ کرواتے ہیں ایک مخصوص مدد کے لیے اور کچھ لوگ بینک میں مخصوص مدد کے لیے جمع نہی کرواتے یعنی جب چاہے پیسے واپس نکال لیتے ہیں دونوں صورتوں میں انکو پیسے جمع کروانے پر بینک کی طرف سے منافع ملتا ہے کیا یہ منافع شرعًا جائز ہے؟ اور جو لوگ ایسا کرواتے ہیں انکے بارے میں شریعت کیا کہتی ہے؟ رہنمائی فرما دیں۔

الجواب بعون الملك الوهاب

الجواب بعون الوھّاب اللھمّ  ھدایۃ الحق  والصواب

یہ منافع سود اور حرام ہے اورجولوگ یہ منافع حاصل کرتے ہیں وہ سود خور اور حرام کے مرتکب ہیں۔

چنانچہ، سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 275 تا 278 میں ہے

اَلَّذِیۡنَ یَاۡكُلُوۡنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوۡمُوۡنَ اِلَّا کَمَا یَقُوۡمُ الَّذِیۡ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیۡطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوۡۤا اِنَّـمَا الْبَـیۡعُ مِثْلُ الرِّبٰوا ۘ وَاَحَلَّ اللہُ الْبَـیۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰواط فَمَنۡ جَآءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ فَانۡتَہٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ ؕ وَاَمْرُہٗۤ اِلَی اللہِ ؕوَمَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ۚ ہُمْ فِیۡہَا خٰلِدُوۡنَ ﴿۲۷۵﴾ یَمْحَقُ اللہُ الرِّبٰوا وَیُرْبِی الصَّدَقٰتِ ؕ وَاللہُ لَا یُحِبُّ كُلَّ کَفَّارٍ اَثِیۡـمٍ ﴿۲۷۶﴾ اِنَّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّ کٰوۃَ لَہُمْ اَجْرُہُمْ عِنۡدَ رَبِّہِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿۲۷۷﴾ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَذَرُوۡا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤْمِنِیۡنَ ﴿۲۷۸﴾

(پ3،البقرۃ: 275 تا278 )

ترجمۂ کنز الایمان: وہ جو سُود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لئے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سُود ہی کے مانند ہے اور اللّه نے حلال کیا بیع کو اور حرام کیا سُود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تووہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے۔ اللّه ہلاک کرتا ہے سُود کو اور بڑھاتاہے خیرات کو اور اللّه کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گنہگار۔ بے شک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی اُن کا نیگ ان کے رب کے پاس ہے اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو اور نہ کچھ غم ۔ اے ایمان والو اللّه سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو۔

اس کے بعد اللّه تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی ارشاد فرماتا ہے

فَاِنۡ لَّمْ تَفْعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرْبٍ مِّنَ اللہِ وَرَسُوۡلِہٖ ۚ وَ اِنۡ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوۡسُ اَمْوَالِكُمْ ۚلَا تَظْلِمُوۡنَ وَلَا تُظْلَمُوۡنَ ﴿۲۷۹﴾ (پ3،البقرۃ: 279)

ترجمۂ کنز الایمان: پھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کرلو اللّه اور اللّه کے رسول سے لڑائی کا اور اگر تم توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ نہ تمہیں نقصان ہو۔

احادیثِ مبارکہ میں سود کی حرمت

کثیر احادیثِ مبارکہ میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے۔ چنانچہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ :

 رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم کا نےفرمایا:”سات چیزوں سے بچو جو کہ تباہ وبرباد کرنے والی ہیں۔“ صحابہ کرام رِضۡوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمۡ اَجۡمَعِیۡن نے عرض کی:”یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَآلِہٖ وَسَلَّم!وہ سات چیزیں کیا ہیں؟“ ارشاد فرمایا:”(1)شرک کرنا (2)جادو کرنا (3)اسے ناحق قتل کرنا کہ جس کا قتل کرنا اللّه عَزَّ وَجَلَّ نے حرام کیا (4)سود کھانا (5)یتیم کا مال کھانا (6)جنگ کے دوران مقابلہ کے وقت پیٹھ پھیرکربھاگ جانا(7)اورپاکدامن،شادی شدہ، مومن عورتوں پر تہمت لگانا۔“

(صحیح البخاری، کتاب الوصایا، باب قول اللہ تعالیٰ ان الذین یاکلون اموال الیتمی۔۔الایۃ، الحدیث:2766، ج 2،ص242)

واللہ تعالیٰ اعلم رسولہ اعلم

  • مفتی محمد سیف اللہ باروی
  • رئیس دارالافتاء مفتی محمد اکرام المحسن فیضی

متعلقہ

تجویزوآراء