بلا ضرورت اذیت دینا
بلا ضرورت اذیت دینا
السلام علیکم
جناب معلوم یہ کرنا ہے کے رات گھر میں بلی آئی جو کے کمزور سی حالات میں تھی اس کو نکال دیا گیا صبح جب دیکھا تو وہ مری ہوی تھی اس کے بارے میں شرعی رہنمائی فرمائیے کے اس کا گناہ ہوگا؟
(سائل: عدیل، کراچی)
الجواب بعون الوھّا ب اللھمّ ھدایۃ الحق والصواب
عام حالات میں بلی یا کسی بھی جانور کو ستانا درست نہیں،خصو صا بلی کو ستانا اور پھر خاص کر کمزوری اور سردی کی حالت میں ستانا اور گھر سے نکال دینا درست نہیں ہے بلکہ ایسا کرنا گناہ کا کام ہے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحیمی وکریمی نہ صرف یہ کہ انسانوں کے ساتھ مخصوص تھی ؛ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ رحمة کی وسعت نے جانوروں کے حقوق کے لیے بھی جدوجہد کی اور ان کو اپنے رحم وکرم کے سایہ سے حصہ وافر عطا کیااورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانوروں کے ساتھ احسان کا حکم دیا اور اس کو اجر وثواب کاباعث بتلایا:
چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ بدکار عورت کی بخشش صرف اس وجہ سے کی گئی کہ ایک مرتبہ اس کا گذر ایک ایسے کنویں پر ہوا جس کے قریب ایک کتا کھڑا پیاس کی شدت سے ہانپ رہا تھا، اور قریب تھاکہ وہ پیاس کی شدت سے ہلاک ہوجائے ، کنویں سے پانی نکالنے کو کچھ تھا نہیں، اس عورت نے اپنا چرمی موزہ نکال کر اپنی اوڑھنی سے باندھا اور پانی نکال کر اس کتے کو پلایا، اس عورت کا یہ فعل بارگاہ الٰہی میں مقبول ہوا،اور اس کی بخشش کر دی گئی۔(مسلم: باب فضل ساقی البہائم، حدیث:۵۹۹۷)
ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! میں اپنے حوض میں پانی بھرتاہوں اپنے اونٹوں کو پانی پلانے کے لیے ، کسی دوسرے کا اونٹ آکر اس میں سے پانی پیتا ہے توکیا مجھے اس کا اجر ملے گاتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:”ہر تر جگر رکھنے والے میں اجر وثواب ہے“ (مسند احمد:مسند عبد اللّٰہ بن عمرو،حدیث: ۲۰۷۵)
اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جانورں کے ساتھ بدسلوکی کوعذاب وعقاب اور سزا کی وجہ گردانا او رانتہائی درجہ کی معصیت اور گناہ قرار دیا او رانسانی ضمیر جھنجوڑنے والے سخت الفاظ استعمال فرمائے؛ چنانچہ حضرت امام بخاری نے روایت نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ایک عورت کو اس لیے عذاب دیا گیا کہ وہ بلی کو باندھ کر رکھتی تھی نہ کھلاتی نہ پلاتی اور نہ اس کو چھوڑ دیتی کہ چر چگ کر کھائے(مسلم : باب تحریم قتل الہرة : حدیث: ۵۹۸۹)
حضرت ابن ِعباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک گدھا گذرا ، جس کے منہ پر داغا گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلمنے اس کو دیکھ کر فرمایا :اس شخص پر لعنت ہو جس نے اس کو داغا ہے(مسلم : باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ، حدیث:۵۶۷۴)اور ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے چہرے پر مارنے اور داغنے سے منع فرمایا ہے(مسلم : باب النہی عن ضرب الحیوان فی وجہہ، حدیث:۵۶۷۴)اور ایک روایت میں ہے کہ غیلان بن جنادة کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اونٹ پر آیا جس کی ناک کو میں نے داغ دیا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا : اے جنادہ ! کیاتمہیں داغنے کے لیے صرف چہرے کا عضو ہی ملا تھا، تم سے تو قصاص ہی لیا جائے(مجمع الزوائد:باب ما جاء فی وسم الدواب،حدیث :۱۳۲۴۳)واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم ۔