دھوبی کا دھویا ہوا کپڑا پاک ہے یا ناپاک؟
دھوبی کا دھویا ہوا کپڑا پاک ہے یا ناپاک؟
اسلام علیکم ، کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس بارے میں کہ دھوبی حضرات سے جو کپڑے دھلواتے ہیں وہ پاک مانیں جائیں گے یا احتیاط کرتے ہوئے اسے گھر میں خود بھی پاک کرلیا کریں؟ (محمد فرخ شان قادری، کراچی)
الجواب بعون الملك الوهاب
دھوبی کو جوکپڑے دھلنے کیلئے دیئے جاتے ہیں ان میں پاک اور ناپاک ملے جلے ہوتے ہیں، اس لئے دھوبی کے دھونے کے بعد ان کپڑوں کےپاک یا ناپاک واپس آنے کے بارے میں دو صورتیں ہیں
پہلی صورت یہ ہے کہ دھوبی اگر جاری پانی میں یا اتنے بڑے حوض میں کپڑے دھوتا ہے جسکا رقبہ سو ہاتھ یا اس سے زیادہ ہو تو سب پاک یا ناپاک کپڑے پا ک ہو جائیں گے۔
علامہ ابن نجیم مصری حنفی لکھتے ہیں کہ "ما ثبت بيقين لا يرتفع الابيقين”والمراد به غالب الظن" (غمز عيون البصائر:۱۹۳/۱)یعنی جو چیز یقین سے ثابت تو وہ زائل نہیں ہو تی مگر اسی طرح کے یقیں سے ،اور یقین سے مراد ظن غالب ہے ۔
اور علامہ علاءالدین الحصكفى رحمۃ الله علیہ لکھتے ہیں:"اما غسل فى غديراو صب عليه ماء كثير او جرى عليه الماءطهر مطلقا بلا شرط " بہر حال (ناپاک کپڑے )بڑے گھڑے میں دھونے یا کثیر پانی ان پر ڈالنے یا پانی کے ان پر جار ی ہو جانے سے مطلقا وہ پاک ہو جائیں گے بغیر کسی شرط کے۔اورعلامہ ابن عابدين رحمۃالله علیہ اس کے تحت لکھتے ہیں "( قوله فى غدير) اى ماء كثير له حكم الجارى"یعنی غدیر سے مراد کثیر پانی ہے جو جاری پانی کے حکم ہو
( رد محتار:۱۳۳/۱)
اوردوسری صورت یہ ہے کہ اگردھوبی تھوڑےپانی میں کپڑے دھوتا ہوتودھوبی کو جو کپڑے دھونے کے لیے دیے جاتے ہیں ان کے بارے میں حکم یہ ہے کہ ا گروہ کپڑے پاک ہیں تو وہ دھوبی کے پاس سے دھلنے کے بعد بھی پاک سمجھے مانیں جائیں گے اور اگر نا پاک تھے تو دھلنےکے بعد بھی نا پاک مانیں جائیں گے اس لیے کہ شریعت کا قاعدہ یہ ہے کہ "اليقين لايزول الا باليقين"
يعنی جو چیز یقینی سےثابت ہوتو جب تک اس کے خلاف یقین یا ظن غالب نہ ہو وہ اپنی پہلی حالت پہ برقرار رہے گی۔
لہذا جب تک پاک کپڑے کی ناپاکی کا یقین نہیں ہو گا وہ پاک مانیں جائیں گےاور اسی طرح جب تک نا پاک کپڑے کی پاکی کا یقین نہیں ہو گا وہ نا پاک سمجھا جائیں گے ۔
والله تعالى اعلم بالصواب