یورپ میں رہن کے ذریعے گھر لینے کا حکم
یورپ میں رہن کے ذریعے گھر لینے کا حکم
الجواب بعون الملك الوهاب
الجواب بعون الوھّاب اللھّم ھدایۃ الحق والصواب
ہاں خریدسکتےہے ،اس لئےکہ دار الحرب میں اگر مسلمانوں کا فائدہ ہو تو کافر وں سےرہن کے ذریعےیا بغیر رہن کےسودی لین دین جائز ہے جبکہ دھوکہ خالی ہو ۔
فتاوٰی رضویہ میں ہے "فی ردالمحتار عن السیر الکبیرو شرحہ اذادخل المسلم دار الحرب بامان فلا باس بان یاخذ منھم اموالھم بطیب انفسھم بای وجہ کان لانہ انما اخذ المباح علی وجہ عری عن الغدر فیکون طیبا لہ والاسیر و المستامن سواء حتی لو باعھم درھما بدرھمین او میتۃ بدراھم او اخذمالامنھم بطریق القمار فذٰلک کلہ طیب لہ" ۲؎ اھ ملخصاً۔
ردالمحتار میں سیر کبیراور اس کی شرح کے حوالے سے مذکور ہے جب کوئی مسلمان امان لے کر دارالحرب میں داخل ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ حربیوں کا مال ان کی رضامندی سے کسی بھی طریقے سے لے کیونکہ اس نے مال مباح ایسے طریقے سے لیا جو کہ دھوکہ سے خالی ہے لہٰذا یہ اس کےلئے حلال ہے، قیدی اور مستامن برابر ہیں ، یہاں تک کہ اگر کسی نے ان پر دو درہموں کے عوض ایک درہم بیچا یا کچھ درہموں کے عوض مردار بیچا یا جوئے کے ذریعے ان کا مال لے لیا تو یہ سب اس کے لئے حلال ہے اھ تلخیص۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار کتاب البیوع باب الربا داراحیاء التراث العربی بیروت۴/ ۱۸۸)
(فتاوٰی رضویہ:ج۱۷،ص۶۳)
اسی طرح فتاوٰی رضویہ میں ہے ۔
سود لینا نہ مسلمان سے جائز نہ ہندو سے ، لاطلاق قولہ تعالٰی وحرم الربٰو۱؎ اما یؤخذ من الحربی فی دارالحرب فمال مباح لیس بربا۔ واﷲ تعالٰی اعلم۔ اس ارشاد باری تعالٰی کے اطلاق کی وجہ سے کہ ''اور اﷲ تعالٰی نے سود کو حرام کردیا'' لیکن جو کچھ دارالحرب میں حربی سے لیا جائے تو وہ مباح مال ہے سودنہیں ۔
(۱؎ القرآن الکریم ۲/ ۲۷۵)
(فتاوٰی رضویہ:ج۱۷،ص۶۳)
واللہ تعالیٰ اعلم ورسولہ اعلم